عالمی ادارہ صحت نے دنیا بھر میں خسرہ کے تیزی سے پھیلاؤ کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ سال دنیا بھر میں اس بیماری کے 30 لاکھ 6,000 سے زیادہ کیس رپورٹ ہوئے جو 2022 کے مقابلے میں 79 فیصد زیادہ تھے ۔
خسرہ اور روبیلا کے بارے میں ڈبلیو ایچ او کی ٹیکنیکل ایڈوائزر نتاشا کروکرافٹ نے کہا، "خسرہ کے بارے میں ہم انتہائی فکر مند ہیں۔"
انہوں نے اس پر زور دیاکہ خسرہ کے کیسز عموماً ڈرامائی طور پر کم رپورٹ ہوتے ہیں، اور یہ کہ ان کی اصل تعداد یقیناً کہیں زیادہ تھی۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی کو خسرہ میں مبتلا ہونےکا شدیدیاانتہائی شدید خطرہ درپیش ہے۔
اقوام متحدہ کا ادارہ مزید درست اعداد و شمار حاصل کرنے کے لیے ہر سال اعداد و شمار کا ماڈل بناتا ہے، اس کے تازہ ترین اندازے کے مطابق 2022 میں خسرہ کے 9.2 ملین کیسز اور 136,216 اموات ہوئیں۔
گزشتہ سال کے لیے اس طرح کے تخمینے نہیں لگائے گئے ، لیکن کروکرافٹ نے کہا کہ 2022 میں اس سے ایک سال قبل یعنی 2021 کی نسبت اموات میں 43 فیصد اضافہ دیکھا گیا تھا۔
انہوں نے قاہرہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ 2022 میں خسرہ کے کیسز میں اتنے زیادہ اضافے کو سامنے رکھتےہوئے "ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 2023 میں بھی اس بیماری سے ہونے والی اموات میں اضافہ ہو ا ہو گا۔ " انہوں نے کہا کہ "یہ سال بہت زیادہ مشکل ہونے والا ہے۔"
انہوں نے انتباہ کیا کہ اس وقت دنیا بھر کے نصف سے زیادہ ملکوں کے بارے میں خیال ہے کہ اس سال کے آخر تک ان میں خسرہ کی وبا کے پھوٹنے کا بہت زیادہ خطرہ ہوگا۔
اور ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ 14 کروڑ بیس لاکھ بچوں کو بیماری کا خطرہ لاحق ہوگا۔
خسرہ ایک انتہائی متعدی بیماری ہے جو ایک وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے جو زیادہ تر بچوں پر حملہ کرتا ہے ۔ اس کی وجہ سےلاحق ہونے والی سنگین ترین پیچیدگیوں میں نابینا پن ، دماغ میں سوجن، اسہال، اور سانس کے شدید انفیکشنز شامل ہیں۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی علاقے میں اس وبا کو روکنے کے لیے کم از کم 95 فیصد بچوں کو اس بیماری سے بچاؤ کے لیے مکمل حفاظتی ٹیکے لگانے کی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن عالمی سطح پر ویکسینیشن کی شرح 83 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مختلف مقامات میں اس بیماری کے کیسز کی شرح مختلف دیکھی گئی ہے ، خاص طور پر اس سے ہونے والی ہلاکتوں کے اعتبار سے یہ عدم مساوات مزید زیادہ دکھائی دیتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مختلف مقامات میں اس بیماری کے کیسز کی شرح مختلف دیکھی گئی ہے ، خاص طور پر اس سے ہونے والی ہلاکتوں کے اعتبار سے یہ عدم مساوات زیادہ دکھائی دیتی ہے۔
کرو کرافٹ نے کہا کہ خسرہ سے مرنے والے بچوں میں سے 92 فیصد بچےعالمی آبادی کے ایک چوتھائی سے بھی کم حصکے درمیان رہتے ہیں، خاص طور پر بہت کم آمدنی والے ممالک میں۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم