واشنگٹن —
روس نے شام کےصدر بشار الاسد کے خلاف اب تک کی جانے والی اپنی سخت ترین نکتہ چینی میں کہا ہے کہ طویل عرصے سے اُس کےاتحادی شام نے اپوزیشن کی طرف سے جمہوری اصلاحات نہ کرکے امکانی طور پر ایک ’تباہ کُن‘ غلطی کی ہے۔
روسی وزیر اعظم دمتری مدویدیف نے یہ بیان اتوار کو نشر ہونے والے سی این این کے امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ مسٹر اسد کو معتدل خیالات کے حامی مخالفین سےفوری رابطہ کرنا چاہئیے تھا۔
مسٹر مدویدیف نے کہا کہ اُن کے خیال میں شام کے صدر کے اقتدار میں رہنے کے امکانات دن بدن کم ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن، اُنھوں نے روس کے اِس مؤقف کا اعادہ کیا کہ شام کی قسمت کا فیصلہ اُن کےعوام کو خود ہی کرنا چاہئیے۔
روس ایک طویل عرصے سےحکمراں اسد خاندان کو اسلحہ فراہم کرتا رہا ہے اور وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ویٹو کرتا آیا ہے، جِن میں پُرامن طور پر شروع ہونے والی جمہوریت نواز بغاوت کو کچلنے کی کوششوں پر شام کی مذمت کے لیے کہا گیا تھا۔
یہ بغاوت ایک خانہ جنگی میں بدل چکی ہے جِس میں اکثریتی سنی باغی اور اسلام پرست شدت پسند مسٹر اسد کے خلاف ہیں، جِن کا تعلق علوی مسلک سے ہے، اور وہ اُن کے 12برس سے جاری اقتدار کو ختم کرنے کے لیے نبرد آزما ہیں۔
شام کے سرکاری میڈیا نے اتوار کے روز خبر دی ہے کہ حکومت کی اعلیٰ عدالتی کونسل نے اپوزیشن کی جلا وطن شخصیات کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا سلسلہ معطل کر دیا ہے، تاکہ اِسی ماہ صدر اسد کی طرف سےتجویز کردہ قومی مکالمےکے آغاز کے لیے وطن واپس لوٹ سکیں۔ تاہم، شام کے جلا وطن مخالفین کا اتحاد مسٹر اسد کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنے سے متواتر انکار کرتا رہا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات کےکسی دور کے آغاز سے قبل اُنھیں اقتدار سے علیحدہ ہو جانا پڑے گا۔
اتوار کے روز اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی سے متعلق کاموں کے ادارے کی سربراہ، ولیری اموس دمشق میں تھیں، تاکہ تنازع کے سبب ہونےوالےنقصانات سے آگہی حاصل کرسکیں، جنھیں اُنھوں نے ’تباہ کُن‘ قرار دیا ہے۔
روسی وزیر اعظم دمتری مدویدیف نے یہ بیان اتوار کو نشر ہونے والے سی این این کے امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ مسٹر اسد کو معتدل خیالات کے حامی مخالفین سےفوری رابطہ کرنا چاہئیے تھا۔
مسٹر مدویدیف نے کہا کہ اُن کے خیال میں شام کے صدر کے اقتدار میں رہنے کے امکانات دن بدن کم ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن، اُنھوں نے روس کے اِس مؤقف کا اعادہ کیا کہ شام کی قسمت کا فیصلہ اُن کےعوام کو خود ہی کرنا چاہئیے۔
روس ایک طویل عرصے سےحکمراں اسد خاندان کو اسلحہ فراہم کرتا رہا ہے اور وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ویٹو کرتا آیا ہے، جِن میں پُرامن طور پر شروع ہونے والی جمہوریت نواز بغاوت کو کچلنے کی کوششوں پر شام کی مذمت کے لیے کہا گیا تھا۔
یہ بغاوت ایک خانہ جنگی میں بدل چکی ہے جِس میں اکثریتی سنی باغی اور اسلام پرست شدت پسند مسٹر اسد کے خلاف ہیں، جِن کا تعلق علوی مسلک سے ہے، اور وہ اُن کے 12برس سے جاری اقتدار کو ختم کرنے کے لیے نبرد آزما ہیں۔
شام کے سرکاری میڈیا نے اتوار کے روز خبر دی ہے کہ حکومت کی اعلیٰ عدالتی کونسل نے اپوزیشن کی جلا وطن شخصیات کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا سلسلہ معطل کر دیا ہے، تاکہ اِسی ماہ صدر اسد کی طرف سےتجویز کردہ قومی مکالمےکے آغاز کے لیے وطن واپس لوٹ سکیں۔ تاہم، شام کے جلا وطن مخالفین کا اتحاد مسٹر اسد کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنے سے متواتر انکار کرتا رہا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات کےکسی دور کے آغاز سے قبل اُنھیں اقتدار سے علیحدہ ہو جانا پڑے گا۔
اتوار کے روز اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی سے متعلق کاموں کے ادارے کی سربراہ، ولیری اموس دمشق میں تھیں، تاکہ تنازع کے سبب ہونےوالےنقصانات سے آگہی حاصل کرسکیں، جنھیں اُنھوں نے ’تباہ کُن‘ قرار دیا ہے۔