لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر انجمن مزارعین پنجاب کے جنرل سیکریٹری مہر عبدالستار کو چار سال بعد جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔
مہر عبدالستار کو رواں ماہ آٹھ ستمبر کو ہائی کورٹ کے دو رُکنی بینچ نے بری کیا تھا جس کے بعد 12 ستمبر کو اُنہیں رہا کر دیا گیا۔
مہر عبدالستار کے خلاف دہشت گردی کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
مہر عبدالستار اس سے پہلے دیگر مقدمات میں بھی بری ہو چکے ہیں جب کہ ان کے ساتھی عبدالغفور کو بھی رہا کر دیا گیا ہے۔ اُنہیں اوکاڑہ زرعی فارمز تنازع پر احتجاج کے دوران 2016 میں سڑکیں بلاک کرنے اور پولیس پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ اوکاڑہ زرعی فارم کی ملکیت کے حوالے سے مقامی کسانوں اور پاکستان کی فوج کے درمیان تنازع کئی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔
مہر عبدالستار کے وکیل نور نبی کے مطابق ان کے مؤکل کے خلاف حکام کوئی ٹھوس ثبوت عدالت میں پیش نہ کر سکے۔ جس کے باعث ان کی چار سال بعد رہائی ممکن ہوئی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے نور نبی کا کہنا تھا کہ مہر عبدالستار کو اپریل 2016 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اِن پر ساہیوال کی عدالت میں دہشت گردی کا مقدمہ دو سال چلا جس میں اِنہیں 10سال قید کی سزا سنائی گئی۔
نور نبی کا مزید کہنا تھا کہ سزا کے بعد مہر عبدالستار کو ہائی سیکیورٹی جیل میں رکھا گیا۔
مقدمے کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے نور نبی کا کہنا تھا کہ اِس کیس میں مہرعبدالستار کی وکیل عاصمہ جہانگیر بھی تھیں۔ ان کی وفات کے بعد انوار الحق پنوں وکیل رہے۔ لیکن وہ بعد ازاں عدالتِ عالیہ کے جج بن گئے جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی رکنِ پنجاب اسمبلی اعظمٰی بخاری کے والد سید زاہد بخاری وکیل تھے۔ جنہوں نے عدالتی چھٹیوں سے پہلے تمام بحث مکمل کر لی تھی۔
نور نبی کے بقول مہر عبدالستار نے کسانوں کے عالمی دن کے موقع پر اپریل 2016 میں کسان کنونشن منعقد کیا تھا۔
کنونشن کے بعد مہر عبدالستار کو ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد ان کے اور دیگر ساتھیوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بنا دیے گئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مہر عبدالستار 12 مقدمات میں انسدادِ دہشت گردی عدالت ساہیوال سے بری ہوئے جب کہ ایک مقدمہ 10 سال چلا جس سے لاہور ہائی کورٹ نے انہیں بری کیا ہے۔
نور نبی کے بقول مہر عبدالستار کی ضمانت نہیں ہوئی بلکہ عدالت نے اِنہیں بری کیا ہے۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں حکومتی وکیل اسد منظور بٹ سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔
'پاکستان کسان رابطہ کمیٹی' کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق بتاتے ہیں کہ مہر عبدالستار کے خلاف 36 مقدمات تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فاروق طارق نے بتایا کہ تمام مقدمات 2001 سے 2016 کے درمیان قائم کیے گئے تھے۔
فاروق طارق کے مطابق تمام مقدمات سڑکوں کو بند کرنے، فائرنگ اور اقدامِ قتل کی بنیاد پر قائم کیے گئے تھے جس کے تحت مہر عبدالستار کو 16 اپریل 2016 کو گرفتار کیا گیا تھا۔
فاروق طارق کا مزید کہنا تھا کہ مہر عبدالستار مختلف مقدمات میں بری ہوتے رہے لیکن ایک مقدمے میں 10 سال کی سزا ہو گئی۔ یہ سزا ساہیوال کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سنائی تھی۔
اطلاعات کے مطابق پاکستانی فوج کا پہلے مؤقف تھا کہ ریونیو اتھارٹی کے مطابق یہ اِن کی زمین ہے جو برٹش راج کے بعد ان کے حصے میں آئی تھی۔ اس لیے کسانوں کو کاشت کردہ فصل کا کچھ حصہ بٹائی کے طور پر انہیں دینا ہو گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں کسانوں سے کہا گیا کہ یہ زمینیں ٹھیکے پر لے لیں۔
مزارعین نے اس پر اعتراض کیا کیوں کہ ان کو لگا کہ ٹھیکہ بھی بڑھا دیا جائے گا اور ایک وقت پر ٹھیکہ منسوخ کر کے ان سے ان کی زمینیں خالی کروا لی جائیں گی۔
دوسری جانب اوکاڑہ فارمز پر کاشت کاری کرنے والے کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ زمینیں ان کے آباؤ اجداد کی ہیں۔
ایک کسان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اوکاڑہ میں لگ بھگ 20 دیہات میں ملٹری فارمز موجود ہیں۔
کسان کا مزید کہنا تھا کہ 2000 میں پالیسی تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ جس کے خلاف مقامی کسانوں اور مزارعین نے احتجاج کیا اور ایک تحریک چلائی اور حقوقِ ملکیت کی جدوجہد شروع کی گئی۔
کسان کے بقول یہ تقریباً چوتھی نسل ہے جو اِن زمینوں پر آباد ہے۔ وہ یہاں کاشت کاری کرتے ہیں۔ یہ تقریباً سو سے ایک سو بیس سال بنتے ہیں۔ یہ زمینیں بنجر تھی جو انہوں نے آباد کی ہیں۔
ان کے بقول تحریک کے نتیجے میں کئی مزارعین کے خلاف مقدمات درج ہوئے اور انہیں جیلوں میں ڈالنا شروع کر دیا گیا اور اب بھی کچھ ساتھی جیلوں میں قید ہیں۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ لاہور (آئی ایس پی آر) کے افسر سے رابطہ کیا تو وہ دستیاب نہیں تھے۔
واضح رہے اوکاڑہ ملٹری فارمز پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وسطی ضلع اوکاڑہ میں قائم ہیں۔ جس کی کم وبیش جگہ اٹھارہ ہزار ایکڑ ہے۔ جس میں سے پانچ ہزار ایکڑ زمین پاکستانی فوج کے پاس جب کہ تیرہ ہزار ایکڑ زمین مزارعین کے پاس ہے۔
ان زمینوں پر زیادہ تر آلو، گندم، مکئی اور چاول کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔