پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایف نائن پارک میں مسلح افراد نے لڑکی کو اسلحے کے زور پر اغوا کے بعد مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جس کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کرکے ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق اسلام آباد کے سب سے بڑے تفریحی فاطمہ جناح پارک میں دوست کے ساتھ آئی لڑکی کو دو مسلح ملزمان نے لڑکے کے ساتھ اغوا کیا اور اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔
خاتون کے مطابق بعد ازاں ملزمان اسلحے کے زور پر انہیں جنگل میں لے گئے جہاں انہوں نے خاتون کو مبینہ طورپر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملے کا مقدمہ تھانہ مارگلہ میں درج کرلیا گیا ہے۔
اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ میں درج مقدمے کے متن کے مطابق خاتون کا کہنا تھا کہ ملزمان نے انہیں جنگل میں لے جا کر زیادتی کا نشانہ بنایا اور معاملے کو چھپانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس نے کسی کو بھی اس بارے میں بتایا تو اسے جان سے مار دیں گے۔
متاثرہ لڑکی نے پولیس کو ریکارڈ کرائے گئے بیان میں کہا کہ ملزمان نے زیادتی کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا جب اُس نے پستول پکڑا تو اُس کا بٹ مارا جب کہ ساتھ میں موجود دوست کو بھی تشدد کا نشانہ بنا کر علیحدہ کر دیا۔
لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ ملزمان کو سامنے آنے پر شناخت کرسکتی ہے۔ دو لڑکوں میں سے ایک کی عمر زیادہ نہیں تھی۔ اس نے اُن سے ہاتھ جوڑ کر زیادتی نہ کرنے کی التجا کی تو انہوں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور ٹانگ پر پستول کا بٹ مارا۔
خاتون نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ان دونوں میں سے ایک نوجوان نے میرے کولیگ کے بارے میں پوچھا کہ تمھارا اس لڑکے سے کیا تعلق ہے اور یہاں کیا کررہی ہو؟
لڑکی کے اونچا جواب دینے پر اس نے میرے منہ پر تھپڑ مارا اور دھمکاتے ہوئے کہا کہ آواز اونچی ہوئی تو اپنے چھ سات بندوں کو بھی بلا لوں گا اور تمہیں پتا بھی نہیں ہے کہ وہ تمھارا کیا حشر کریں گے۔
خاتون کا کہنا تھا کہ مجرمان نے میرے کپڑے دوسری جگہ پھینک دیے تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔ زیادتی کے بعد ان لوگوں نے مجھ سے میرے کام کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ اس ٹائم پارک میں مت آیا کرو۔
خاتون کے مطابق ملزمان نے موبائل اور سامان واپس کردیا اور ایک ہزار کا نوٹ بھی دیا اور کہا کہ کسی کو کچھ بھی نہیں بتانا اور جنگل کی طرف بھاگ گئے۔
لڑکی کا پمز اسپتال میں طبی معائنہ ہوا جس کی میڈیکل رپورٹ میں جسم پر تشدد کے نشانات پائے گئے ہیں۔
پولیس نے پارک انتظامیہ کو بھی شامل تفتیش کرلیا۔
اسلام آباد پولیس کے ترجمان نے کہا ہے کہ واقعے سے متعلق اسپیشل یونٹ تفتیش کررہا ہے۔ تفتیش کی نگرانی سی پی او آپریشنز سہیل ظفر چٹھہ کررہے ہیں۔ پارک میں موجود لوگوں اور انتظامیہ سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے جب کہ مشکوک افراد کے ڈی این اے بھی لیے جارہے ہیں۔ کیمروں اور انٹیلی جنس کی بنیاد پر شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ جلد اصل ملزمان کو گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔
اسلام آباد کا ایف نائن پارک اسلام آباد کے پوش ایف ایریا میں شہر کا سب سے بڑا پارک ہے جہاں روزانہ ہزاروں افراد چہل قدمی اور سیر کے لیے آتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل اس پارک میں ایک شخص کو نامعلوم فرد نے شدید زخمی کردیا تھا جب کہ پارک کے اندر چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں بھی ہوچکی ہیں جن میں پارک میں سیر کرنے والوں کو مسلح افراد نے اسلحے کے زور پر لوٹ لیا۔
پارک کے مرکزی دروازے پر اگرچہ کیمرے نصب ہیں لیکن کئی مقامات پر پارک کی دیواروں میں بھی راستے ہیں جن سے عام افراد داخل ہوتے رہتے ہیں۔ اس پارک میں سیاسی جماعتوں کو جلسے کرنے کی بھی اجازت دی جاتی ہے۔
اسلام آباد پولیس میں اس کیس پر کام کرنے والے ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس معاملہ پر اعلیٰ سطح کی ٹیمیں بنائی گئی ہیں جو گیٹس اور مختلف مقامات پر لگے ہوئے سیف سٹی کیمروں کی ریکارڈنگ کا جائزہ لے رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پارک کی طرف جانے والی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کا ریکارڈ بھی جمع کیا جارہا ہے۔
پاکستان میں جنسی زیادتی کے واقعات کے حوالے سے چند سال قبل قصور میں ایک بچی زینب کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور قتل کے بعد ملک بھر میں احتجاج کیا گیا جس کے بعد زینب الرٹ کے نام سے ایک ایپ بھی سامنے لائی گئی تھی اور زیادتی کے ملزمان کے لیے سخت قانون سازی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
لاہور میں موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بعد بھی ملک بھر میں احتجاج کیا گیا تھا۔ دونوں کیسز کے ملزمان کو پولیس نے کچھ عرصے کے بعد گرفتار کرلیا تھا۔
سوشل میڈیا پر زیادتی کے اس واقعے کے بعد شدید احتجاج دیکھنے میں آرہا ہے جن میں خواتین کا کہنا ہے کہ وہ کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
پلوشہ عباس نامی خاتون نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ یہ حال ملک کے درالحکومت میں ہے تو ملک کے دوسرے حصوں میں کیا حال ہوگا۔
صحافی اسد علی طور کا کہنا تھا کہ کیا ملک ہے جہاں گینگ ریپ کرنے والے درندے زیادتی کے بعد لیکچر دے رہے ہیں کہ سورج ڈھلنے کے بعد واک کے لیے نہ نکلا کرو۔
صارف مینا گبینا نہ کہا کہ میں ایک صبح ایف نائن پارک میں واک کرنے گئی تو وہاں اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کی شرٹ میں ملبوس ایک پولیس اہل کار نے انہیں کہا کہ آپ اتنی صبح اکیلی کیوں آئی ہیں۔ یہاں ہر قسم کے لوگ آتے ہیں۔
اس پر انہوں نے اسے کہا کہ ایسے لوگوں کو آپ روکیں، یہ پارک واک کرنے کے لیے بنا ہے اور وہ اسی مقصد کے لیے آتی ہیں۔
اسلام آباد سے سابق رکن قومی اسمبلی علی نواز اعوان نے پوسٹ کی کہ پولیس کی وجہ سے جو شہر ملک کے محفوظ ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا، آج اسی پولیس کی وجہ سے بدترین شہر بن کر رہ گیا ہے۔ کہیں قبضہ گروپوں کی لڑائیاں ہیں تو کہیں واک کرنے والی خواتین کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، اسلام آباد پولیس کو غیر سیاسی کرکے شہرکو محفوظ بنانا ناگزیر ہوچکا ہے۔