عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق صوبائی وزیر اطلاعات, میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ ’پاکستان میں حالات بہتر ہو رہے ہیں. عدلیہ مستحکم ہوئی ہے، مارشلا نہ لگانے سے فوج کے وقار میں اضافہ ہوا ہے، میڈیا مضبوط ہوا ہے اور پارلیمنٹ ایک بار پھر سپریم ادارہ بن کر ابھرا ہے، کیونکہ سیاستدانوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے‘۔
میاں افتخار نے بدھ کے روز وائس آف امریکہ کے دورے میں، صحافی کارکنوں سے بات چیت اور پروگرام جہاں رنگ اور راونڈ ٹیبل میں میزبان نفیسہ ہود بھائی اور شہناز نفیس کے سوالوں کے جواب دیے۔
میاں افتخارکا کہنا تھا کہ ’صوبائی خودمختاری کی بات کرنا کبھی غداری سمجھی جاتی تھی۔ لیکن، اسی پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے صوبوں کو خود مختاری دی اور اب مضبوط مرکز کی نہیں، بلکہ مضبوط پاکستان کی بات کی جاتی ہے۔ اور پارلیمنٹ میں تمام معاملات پر اتفاق رائے سے فیصلے کئے جاتے ہیں‘۔
دہشت گردی کے شکار میاں خاندان کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’امن کے لئے قربانی دینا پڑتی ہے۔ امن کے لئے ہم حکومت کا ساتھ دیتے ہیں، کیونکہ امن سب کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے قبائلی نظام کے خاتمے کی حمایت کی اور کہا کہ ’قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبر پختون خواہ میں شمولیت سے صوبہ مزید مستحکم ہوگا اور قبائلی علاقوں میں بھی ترقیاتی کام شرو ع ہوسکیں گے‘۔
میاں افتخار نے کہا کہ ’دہشت گردی کے خلاف پہلی بار پوری قوم ایک ہی صفحہ پر ہے اور اچھے اور برے طالبان کے چکر سے نکل آئی ہے۔ بلا امتیاز کارروائی کے نتیجے میں، دہشت گردی کا خاتمہ ہونے کو ہے۔ ازبک، تاجک اور عرب یا تو فرار ہوچکے ہیں یا پھر مارے جاچکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آئی ڈی پیز پر توجہ دی جائے‘، تاکہ، بقول ان کے، ’وہ مجبور ہوکر دوبارہ دہشت گردی کی جانب مائل نہ ہوجائیں‘۔
اُنھوں نے حالیہ زلزلہ متاثرین کی امدادی مہم میں کالعدم تنظمیوں کی شمولیت پر پابندی کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ یہ کالعدم تنظمیں ایسے ہی موقعوں کو لوگوں کی ہمدردی سمیٹنے کے لئے استعمال کرکے خود کو منظم کرتی ہیں اور بعد میں اسی معاشرے سے انتقام لیتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان اور بھارت سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر سختی سے کاربند رہا جائے۔
انھوں نے اس خیال کی تردید کی کہ افغانستان کا جھکاؤ بھارت کی جانب ہے، انھوں کہا کہ وہ ایک آزاد ملک ہے اور کسی بھی ملک سے تعلقات قائم کرنے کا مجاز ہے۔
ایک سوال پر میاں افتخار کا کہنا تھا کہ ضرب عضب کے آغاز میں تاخیر فوجی سربراہ کی تبدیلی کے باعث ہوئی۔ لیکن، اس کے آغاز کی اصل وجہ امریکی افواج کی واپسی کے علاوہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں چین کی حمایت بنی اور ایسا ماحول بنا جس میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ۔ ’اب یہ کارروائی کامیابی سے جاری ہے‘۔