رسائی کے لنکس

کیا شائقین کھیل کی اسپورٹس مین شپ ختم ہوتی جارہی ہے؟


زمانہ ترقی کر گیا لیکن کھیل سے جنون کی حد تک لگاؤ کا سلسلہ آج بھی مختلف قسم کے کھیلوں میں دیکھا جاتا ہے۔
زمانہ ترقی کر گیا لیکن کھیل سے جنون کی حد تک لگاؤ کا سلسلہ آج بھی مختلف قسم کے کھیلوں میں دیکھا جاتا ہے۔

چھٹی صدی عیسوی میں بازنطینی سلطنت میں سالانہ رتھ دوڑ کے ایک مقابلے کے نتیجے پر ٹیموں کے حامیوں کے ایک دوسرے پر تشدد کے واقعے میں کئی افراد ہلاک ہوئے۔ گرفتار ہونے والوں کی سزاؤں پر مزید فسادات پھوٹے اور یہ اتنے بڑھے کہ کہا جاتا ہے کہ اس میں ہزاروں لوگ مارے گئے اور دارالحکومت قسطنطنیہ کی نصف عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ نہ صرف کھیل کے میدان کو آگ لگا دی گئی بلکہ تاریخی گرجا گھر آیا صوفیہ کو بھی جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔ کھیل کے میدان سے شروع ہونے والا تاریخ کا شاید یہ سیاہ ترین واقعہ ہو جسے تاریخ میں 'نیکا فسادات' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

زمانہ ترقی کر گیا لیکن کھیل سے جنون کی حد تک لگاؤ کا سلسلہ آج بھی مختلف قسم کے کھیلوں میں دیکھا جاتا ہے۔ میچز خواہ کرکٹ کے ہوں یا فٹ بال اور بیس بالز کے، ایشیا سے لے کر یورپ اور امریکہ تک ایسے بے تحاشہ واقعات سننے اور دیکھنے کو ملیں گے جہاں شائقین کھیل آپے سے ہی باہر ہو گئے ہوں۔ زبانی تلخ کلامی سے لیکر معاملات گتھم گتھا ہونے، آس پاس کی املاک کو نقصان پہنچانے سے لیکر ایسے واقعات تک نظر آئیں گے جہاں انسانی جانیں تک چلی گئی ہوں۔ کسی نا خوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر میں بڑے مقابلوں کے میدانوں کے باہر سکیورٹی کا انتظام نظر آتا ہے۔

مشہور مصنف اور صحافی جارج اورویل نے 1945 میں اسپورٹس پر لکھے گیے اپنے ایک مضمون میں بالخصوص کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں پر رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ کھیل نفرت، حسد اور گھمنڈ سے لبریز ہوتا ہے۔ انہوں نے اسے ایک ایسی جنگ قرار دیا کہ جس میں بس گولیاں نہیں چلتیں۔ اور یہاں وہ کھلاڑیوں کے انداز پر نہیں بلکہ تماشائیوں کے رویوں پر بات کر رہے تھے۔ جارج اورویل کے مطابق یہ مضحکہ خیز ہے کہ تماشائی دوڑنے اچھلنے یا ایک بال کو کک کرنے کو اپنی قومی آبرو سے جوڑ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک بین الاقوامی اسپورٹس قوم پرستی کے اظہار سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

اورویل آج زندہ ہوتے تو شاید مثال میں کرکٹ میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت کا ذکر بھی کرتے۔

پاکستان کی ٹیم ایشیا کپ کے فائنل تک پہنچ کر بھی ایشیا کپ تھامنے سے محروم رہی۔ پاکستان فائنل میں پہنچا تو پاکستانی قوم کی، جس کی رگوں میں خون کے علاوہ شاید چائے اور کرکٹ بھی دوڑتی ہے، ٹیم سے امید اور توقعات بڑھ گئیں اور پھر جیت اس وقت ہاتھ سے نکل گئی جب بقول شاعر دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گئے۔

کرکٹ کھیل ہے اور کھیل میں ہار جیت ہوتی ہی ہے مگر ٹی ٹونٹی کے فائنل میں پاکستانی بیٹننگ لائن کی سست پرفارمنس پر کئی کڑوے تو کئی مزاحیہ تبصرے نظر سے گزرے۔ کسی دل جلے نے تو ٹوئٹر پر کچھ یوں تبصرہ کیا کہ' یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ میچ فکسڈ ہے دونوں قوموں کے پاس زہر کھانے کے بھی پیسے نہیں'۔

مزاحیہ میمز اور تبصروں کے ذریعے اپنا غم غلط کرتے تو بہت لوگ نظر آتے ہیں مگر کتنی ہی بار بڑے میچز کے بعد نیوز چینلز پرشہریوں کو اپنے ٹی وی سیٹس توڑتے بھی دیکھا گیا ہے۔

اسی ٹورنامنٹ میں کچھ روز پہلے شارجہ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کھیلے جانے والے ایشیا کپ کے میچ میں تلخی اور بدمزگی کے کچھ ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آئے جوشاید کم از کم شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں تو پہلے کبھی نہیں دیکھے گیے۔

اس سنسنی خیز مقابلے میں پاکستان کی جیت کے بعد افغانستان ٹیم کے کئی شائقین جذبات پر قابو نہیں رکھ پائے۔ مختلف وڈیوز میں انہیں پویلین میں لگی کرسیاں اکھاڑ کر پاکستانی شائقین پر پھینکتے ہوئے دیکھا گیا۔ بدمزگی کے کچھ اور مناظر اسٹیڈیم کے باہر بھی نظر آئے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کھلاڑی یاسر حمید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شارجہ اسٹیڈیم میں شدید غصے کے اظہار اور ہلڑ بازی پر کہا کہ انہوں نے اپنے کرکٹ کرئیرمیں اس قسم کا پر تشدد رد عمل نہیں دیکھا۔ یاسر حمید کے مطابق شائقین کو برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے کرکٹ کے کھیل کی ہی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ کھیل ایک کھلاڑی کو برداشت، رواداری، مستقل مزاجی، اور کردار سازی سکھاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا یہ انہوں نے کرکٹ سے ہی سیکھا ہے کہ جیت میں کیسے ہمدرد رہنا ہے اور ہار میں سبکی محسوس نہیں کرنی۔

یاسر حمید کے مطابق بہت سے شائقین اس اسپورٹس مین شپ کو سمجھتےہیں ورنہ جہاں یہ کھیل اچھی تفریح فراہم کرتا ہے وہیں ایسے واقعات سے انٹرٹینمنٹ چھن بھی جاتی ہے۔

نیویارک: پاکستانی اور بھارتی کرکٹ فینز نے میچ کیسے انجوائے کیا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:28 0:00

جب ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں تو ذہن یہ سوال کرتا ہے کہ پھر ایسا کیوں کہا جاتا ہے کہ کھیل لوگوں کو قریب لانے کا ذریعہ ہیں؟

جامعہ کراچی میں شعبہ نفسیات کی پروفیسر ڈاکٹر انیلہ امبر ملک کے مطابق اس صورت حال میں دو باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ پہلے تو یہ کہ ایشیا کے اس خطے میں کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس سے لوگ وابستگی محسوس کرتے ہیں اور یہ وابستگی چونکہ بہت کم عمری سے ہی شروع ہو جاتی ہے یہ ان کی سماجی شناخت کا حصہ بن جاتی ہے۔ کرکٹ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اہم میچز سے پہلے انہیں دیکھنے کی باقاعدہ تیاری کی جاتی ہے، جیت کے بعد الگ اہتمام ہوتا ہے۔ ان کے بقول صرف یہی نہیں کم عمر شائقین کے لیے کھلاڑی رول ماڈلز ہوتے ہیں، وہ بڑے ہو کران جیسا بننا چاہتے۔ ڈاکٹر ملک کے مطابق آج ٹیم میں شامل کتنے ہی کھلاڑی خود ایسے ہوں گے جو کم عمری میں ماضی کے کرکٹرز کو دیکھ کر ان کے جیسا بننا چاہتے تھے اور آج یہاں ہیں۔

ڈاکٹر انیلہ امبر ملک کے مطابق چونکہ اس کھیل سے وابستگی اتنی مضبوط ہے اسی لیے اس پر ردعمل بھی سخت نظر آتا ہے۔ ان کے مطابق فینز کے لیے ان کی ٹیم کی جیت ان کی جیت اور ہار ان کی ہار ہوتی ہے لیکن جہاں وہ جیت کو اپنی ذاتی فتح تصور کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں، وہیں بہت سے شائقین شکست میں حقیقت سے دور نظر آتے ہیں اور اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر ملک اسے نفسیات کی زبان میں سمجھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ جیت اور اس سے ملنے والی خوشی ان کے تئیں ان کی وقعت میں اضافہ کرتی ہے، وہ خود کو پہلے سے زیادہ پر اعتماد اور اہم سمجھنے لگتے ہیں۔

ڈاکٹر ملک کے مطابق جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات دوستانہ نہ ہوں تو پھر یہ جیت ان کے لیے انا کا مسئلہ بن جاتی ہے۔ ایسے میچز کے دوران خواہ شائقین گھر میں ہوں یا اسٹیڈیم میں ڈاکٹر ملک کے مطابق ان کے جذبات کا اظہار خواہ وہ کیچ لینے پر خوشی کا ہو یا کیچ چھوٹنے پرغصے اور تعصب کا، پر زور انداز میں ہوتا ہے۔

ڈاکٹر ملک کہتی ہیں کہ غور کیا جائے کہ جن ممالک سے تعلقات دوستانہ ہوتے ہیں ان سے ہار کا غم اور ردعمل ویسا نہیں رہتا، ٹیم سے توقعات تو بہت ہوتی ہیں لیکن یہاں معاملہ انا کا نہیں ہوتا۔

کھیل میں فینز کی جانب سے کدورتوں کا اظہار، پھبتیاں کسنا، ایک دوسرے کو ( یا قوموں کو) نیچا دکھانے کے لیے طنز کرنا یا پھر تشدد پر ہی اتر آنا ایک صحت مند اور مثبت سرگرمی کا افسوسناک پہلو ہے۔ ان رویوں کا ذمہ دار ڈاکٹر ملک معاشرتی تنزلی اور تربیت میں کمی کو سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نفسیات میں کی گئی تحقیق یہ بتاتی ہے اس قسم کے رویوں کا تعلق بچپن میں ملنے والی تربیت سے ہی ہوتا ہے اور معاشرے میں اب تربیت پرخاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔

ڈاکٹر انیلہ امبر ملک نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ 'پہلے جو بات آپ گھر میں نہیں کر سکتے تھے وہ باہر بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ہر معاشرے کا ایک سوشل فلٹر ہوتا ہے جس سے باتیں چھن کر نکلا کرتی ہیں اب وہ غائب ہوتا جارہا ہے، اب جو سوچا جاتا ہے اسے کہنے میں جھجھک ختم ہوگئی ہے'۔ ان کے مطابق مختلف حلقوں کی جانب سے اور یہاں انہوں نے گزشتہ سالوں میں ملکی سیاست کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان رویوں کو ری انفورس کیا جاتا ہے یا قوت دی جاتی ہے اور سوشل میڈیا کے دور میں یہ کام مزید آسان ہوگیا ہے۔

یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ کرکٹ کے بڑے مقابلوں کی رونق اسٹیڈیم میں بیٹھے تماشائی ہوتے ہیں۔ کسی میچ کے لیے جب میدان سجتاہے، شائقین اپنے ملکوں کے جھنڈے اٹھائے، چہروں پر فیس پینٹ کیے، اپنی ٹیم کی قمیضیں پہن کر اسٹینڈز میں پہنچتے ہیں تو کھیل کا ماحول ہی الگ ہو جاتا ہے۔ جب اسٹیدیم میں قومی ترانہ گونجتا ہے تو فرط جذبات سے کتنی ہی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ کیا کرکٹ سے وابستگی اور اس سے جڑی جذباتیت ( جذباتی پن) کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ شاید نہیں، مگر کیا ان جذبات کے اظہار میں مغلظات، جارحانہ مخالفت، جنونی وطن پرستی اور تشدد سے پرہیز کیا جاسکتا ہے؟ ایسا یقینا" ممکن ہے۔

ایک کہاوت ہے کہ " Humble in victory, gracious in defeat" یعنی جیت پر عاجز رہا جائے اور شکست پر کشادہ قلب اور مہربان کیوںکہ دوسرے دیکھ رہے ہیں اور وہ اسی چال چلن سے آپ کو جانچیں گے۔

XS
SM
MD
LG