رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: اپوزیشن اور سیاحت کے شعبے سے وابستہ شخصیات امریکی ٹریول ایڈوائزری سے ناخوش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • جموں کشمیر کے اپوزیشن رہنماؤں نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت وادی کے بارے میں امریکہ کے نقطہ نظر کو بدلنے میں ناکام رہی ہے۔
  • امریکی محکمۂ خارجہ نے حال ہی میں ٹریول ایڈوائزری میں اپنے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ جموں و کشمیر سمیت بھارت کے بعض حصوں کا سفر کرنے سے اجتناب کریں۔
  • سری نگر میں جی۔20 کے تماشے کے باوجود جموں و کشمیر اب بھی امریکی محکمۂ خارجہ کی ٹریول ایڈوائزری کے نشانے پر ہے، عمر عبداللہ
  • جموں و کشمیر کے بارے میں منفی ٹریول ایڈوائزری جاری کرنے کے نتیجے میں میں سیاحت کی صنعت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے، ٹور آپریٹر
  • سیاحوں کے نہ آنے کی وجہ سے لگژری ہوٹلز، ہاؤس بوٹس اور دیگر مہمان خانے ویران ہو گئے تھے، رؤف ترنبو
  • توقع تھی امریکہ منفی ٹریول ایڈوائزری کو واپس لے گا لیکن ایسا نہ ہوا، محمد یاسین تومان

سری نگر _ بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کی اپوزیشن جماعتیں اور سیاحت کے شعبے سے وابستہ شخصیات امریکہ کی جانب سے حال ہی میں جاری ہونے والی ٹریول ایڈوائزری سے ناخوش ہیں۔

اپوزیشن رہنماؤں نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے بارے میں امریکہ کے نقطہ نظر کو بدلنے میں ناکام رہی ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ نے 23 جولائی کو بھارت کے بارے میں ٹریول ایڈوائزری کو اپ ڈیٹ کیا تھا اور امریکی شہریوں سے کہا تھا کہ وہ جموں و کشمیر سمیت بھارت کے بعض حصوں کا سفر کرنے سے اجتناب کریں۔

امریکی ٹریول ایڈوائزری میں جموں و کشمیر کو لیول۔4 پر رکھا گیا ہے یعنی امریکی شہریوں کو اس علاقے کا سفر نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے اپوزیشن رہنماؤں نے امریکی ٹریول ایڈوائزری پر اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ ایڈوائزری کے اجرا سے جموں و کشمیر سے متعلق وزیرِ اعظم مودی کے تمام دعوے کھوکھلے ثابت ہو گئے ہیں۔

اپوزیشن رہنما اور سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے ایک بیان میں کہا کہ "معمولاتِ زندگی بحال ہونے اور امن قائم ہونے کے بلند بانگ دعوؤں اور سری نگر میں جی۔20 کے تماشے کے باوجود جموں و کشمیر اب بھی امریکی محکمۂ خارجہ کی ٹریول ایڈوائزری کے نشانے پر ہے۔ مودی حکومت کچھ بھی بدل نہیں پائی ہے۔"

واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے سری نگر میں گزشتہ برس مئی میں جی ٹوئنٹی ممالک کے ٹورازم ورکنگ گروپ کے اجلاس اور دیگر تقریباًت کا انعقاد کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اب جموں و کشمیر میں سیاحت کو فروغ ملے گا۔

بھارت کی وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کی سربراہی میں جموں و کشمیر انتظامیہ یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ جی۔20 تقریبات جموں و کشمیر کے بارے میں بیرونی دنیا میں پائے جانے والے اس تاثر کو ختم کرنے میں بڑی مدد گار ثابت ہوئیں کہ یہ ایک شورش زدہ علاقہ ہے۔

منوج سنہا نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ جی۔20 تقریبات کے کامیاب انعقاد نے جموں و کشمیر کو عالمی سطح پر فروغ دے دیا ہے جب کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے 20 فروری کو جموں میں ایک عوامی جلسے سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ اپنے غیر ملکی دوروں کے دوران جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد ہونے والی تعمیر و ترقی کے بارے میں مثبت سوچ پا رہے ہیں۔

سیاحت کے شعبے سے وابستہ افراد نے امریکی محکمۂ خارجہ کی جانب سے جموں و کشمیر کو امریکی شہریوں کے لیے ایک مرتبہ پھر پُرخطر علاقہ قرار دیے جانے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

سرکردہ ٹور آپریٹر رؤف ترنبو کہتے ہیں جموں و کشمیر کے بارے میں منفی ٹریول ایڈوائزری جاری کرنے کے نتیجے میں ماضی میں سیاحت کی صنعت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ علاقے میں شورش اپنی انتہا پر تھی تو ڈومسٹک (بھارتی) سیاحوں کی تعداد میں نمایاں کمی آ گئی تھی جب کہ غیر ملکی سیاحت زیرو پر تھی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاحوں کے نہ آنے کی وجہ سے لگژری ہوٹلز، ہاؤس بوٹس اور دیگر مہمان خانے ویران ہو گئے تھے اور ان کے مالکان کے ساتھ ساتھ بالخصوص ایڈونچر ٹورازم سے وابستہ اسٹیک ہولڈرز معاشی بدحالی کا شکار ہو گئے۔

'امریکی ایڈوائزری غیر متوقع ہے'

سری نگر کے ایک ہاؤس بوٹ مالک محمد یاسین تومان نے کہا "ہم یہ توقع کر رہے تھے کہ امریکی حکومت جموں و کشمیر کے بدلتے حالات کے پیشِ نظر علاقے کے بارے میں اپنی منفی ٹریول ایڈوائزری کو واپس لے گی یا کم از کم اس میں ترمیم کر کے اپنے شہریوں کے یہاں آنے کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔"

البتہ بھارتی حکومت نے امریکی محکمۂ خارجہ کی ٹریول ایڈوائزری کو معمول کے مطابق قرار دے کر اس معاملے کو کم اہمیت دینے کی کوشش کی ہے۔

نئی دہلی میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے جمعرات کو ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوراں کہا کہ "یہ ایک معمول کا معاملہ ہے۔ ہم اسے اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہم بھی ٹریول ایڈوائزریز جاری کرتے رہتے ہیں۔"

امریکی محکمۂ خارجہ کی ٹریول ایڈوائزری میں بھارت کو مجموعی طور پر لیول۔2 پر رکھا گیا ہے جب کہ ملک کے کئی علاقوں کو جن میں جموں و کشمیر، بھارت۔پاکستان سرحد ، منی پور اور وسطی اور مشرقی بھارت کے بعض علاقوں کو لیول۔4 پر رکھا گیا ہے۔

سفر سے متعلق اس ہدایت نامے میں جہاں امریکی شہریوں کو جموں و کشمیر کا رخ نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے وہیں اس میں لداخ خطے بالخصوص اس کے صدر مقام لیہہ کو سفر کے لیے محفوظ علاقہ قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی دفعہ 370 اے کو منسوخ کر کے جموں و کشمیر کو ریاست سے الگ کر کے ایک علیحدہ یونین ٹریٹری یا وفاق کا زیرِ کنٹرول علاقہ بنایا تھا۔

امریکہ کے خدشات کی وجہ؟

امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی دیگر ممالک جموں و کشمیر میں 1989 میں مسلح شورش کے آغاز کے بعد سے اپنے شہریوں کے لیے ٹریول ایڈوئزری جاری کرتے ہیں جسے وقتاً فوقتاً اَپ ڈیٹ بھی کیا جاتا رہا ہے۔

جرمنی نے اس طرح کی ایڈوائزری کو 2011 میں واپس لے لیتے ہوئے کہا تھا کہ جموں و کشمیر کے "بڑی حد تک پُر سکون ہو جانے اور جھڑپوں کے دوران غیر ملکی شہریوں کو عموماً ہدف نہ بنائے جانے" کے پیشِ نظر ایڈوائزری واپس لی جا رہی ہے۔

لیکن امریکہ اور برطانیہ سمیت چند دوسرے ممالک کو اپنی ایڈوائزریز کو واپس لینے پر آمادہ کرنے کی کوششیں تاحال کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔

واضح رہے کہ سن 1994 اور 1995 میں دو الگ الگ واقعات میں حرکۃ الانصار اور الفاران نامی عسکری تنظیموں نے وادی کشمیر کے جنوب میں واقع صحت افزا مقام پہلگام سے غیر ملکی سیاحوں کو اغوا کر لیا تھا جن میں چار برطانوی، دو امریکی، جرمنی اور ناروے کا ایک ایک شہری شامل تھے۔

اغوا کی پہلی واردات میں حرکۃ الانصار نے برطانیہ کے دونوں شہریوں کو نقصان پہنچائے بغیر رہا کر دیا تھا لیکن دوسرے واقعے میں اغوا کیے گیے ناروے کے شہری ہنس کرسچن اوسٹرو کا سر قلم کر دیا تھا۔ جب کہ ایک امریکی شہری جان چائلڈس اغوا کاروں کے چنگل سے اپنے آپ کو چھڑا کر بھاگنے میں کامیاب ہوا تھا۔

چار دیگر یرغمالوں کے بارے میں تا حال کوئی پتا نہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بھی مارے جاچکے ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG