ایک سال، آٹھ مہینے اور انیس دن۔ دو پاکستانی فلموں کی ریلیز کے درمیان اتنا بڑا وقفہ حالیہ دنوں میں کسی 'ریکارڈ' سے کم نہیں۔
اٹھائیس فروری 2020 کو ہارر فلم 'ریکارڈ' کی ریلیز کے بعد 19 نومبر 2021 کو 'کھیل کھیل میں' کی نمائش تک کرونا وبا کی وجہ سے سنیما گھر ویران اور شائقین پاکستانی فلموں سے محروم رہے۔
جس طرح سن 2014 میں ہدایت کار نبیل قریشی اور پروڈیوسر فضا علی مرزا کی 'نامعلوم افراد' کی ریلیز پاکستانی شائقین کو سنیما میں واپس لائی تھی، امکان ہے کہ ان کی پانچویں فلم یہی کارنامہ دوبارہ انجام دینے میں کامیاب ہو گی۔ کیوں کہ اس دوران ان کی فلمیں 'ایکٹر ان لا'، 'نامعلوم افراد ٹو' اور 'لوڈ ویڈنگ ' سنیما میں ریلیز ہوئیں جنہیں شائقین نے بے حد پسند بھی کیا۔
فلم ‘کھیل کھیل میں' کی کہانی پچاس سال قبل ہونے والے ایک ایسے سانحے کے گرد گھومتی ہے جس پر بات کرنا تو دور، جس کا ذکر بھی کورس کی کتابوں میں نہیں کیا گیا اور پاکستانی ذرائع ابلاغ بھی کم اس پر بات کرتا ہے۔
اس فلم کے ذریعے اس کے بنانے والوں نے کوشش کی ہے کہ ماضی کے بجائے مستقبل پر زور دیا جائے تاکہ پچھلی غلطیوں سے سبق سیکھا جاسکے۔
موضوع کیا ہے اور اسے چھیڑنا اتنا ضروری کیوں تھا؟
ایک ایسے وقت میں جب بالی وڈ کی ہر مہینے کوئی نہ کوئی ایسی فلم ریلیز ہوتی ہے جو یا تو مبینہ طور پر مسلمانوں یا پاکستانیوں کے خلاف ہوتی ہے، پاکستانی فلم سازوں کا 'سقوطِ ڈھاکہ' پر ایک فلم بنانا قابل ستائش کہا جا سکتا ہے۔
فلم کی کہانی ایک ایسی لڑکی (سجل علی) کے گرد گھومتی ہے جو بنگلہ دیش میں ہونے والے ڈرامہ مقابلے میں شرکت کے لیے اپنے دوستوں کے ہمراہ جاتی ہے۔ لیکن وہاں جاکر ان لوگوں کی حالتِ زار دیکھ کر پریشان ہوجاتی ہے جو سقوطِ ڈھاکہ کے وقت مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان نہیں آ سکے تھے۔
اس کاوش میں جہاں اس کے دوست اس کا ساتھ دیتے ہیں وہیں انہیں اس سوچ کا بھی مقابلہ کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بنا۔
فلم میں جہاں ٹی وی کے مقبول اداکار بلال عباس خان اور سجل علی مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں وہیں مرینہ خان، جاوید شیخ، فرحان علی آغا، نوید رضا اور لیلیٰ واسطی بھی اس کا حصہ ہیں۔
منظر صہبائی اور شہریار منور نے بھی فلم میں اہم کردار ادا کیا ہے جب کہ کئی نئے اداکاروں کی وجہ سے فلم نے پاکستان کو نیا ٹیلنٹ دیا ہے۔
فلم کے ہدایت کار نبیل قریشی اور پروڈیوسر فضا علی مرزا نے اپنی باقی تمام فلموں کی طرح اس فلم کا اسکرپٹ بھی لکھا ہے اور اسے 16 دسمبر 1971 کو ہونے والے واقعے کے پچاس سال ہونے سے قبل ریلیز کرکے شائقین کو سوچنے پر مجبور بھی کیا ہے۔
فلم میں تمام اداکاروں نے اچھا کام کیا ہے۔ البتہ سجل علی کی دل موہ لینے والی اداکاری سب پر بھاری رہی۔
وہ شائقین جو یا تو 1971 میں بنگلہ دیش بنتے وقت وہاں موجود تھے یا ان کے کسی رشتہ دار یا خاندان والے جنہوں نے پچاس سال قبل یہ دن مشرقی پاکستان میں گزارے۔ ان کے لیے یہ فلم کسی 'بلاک بسٹر' سے کم نہیں۔
فلم میں قیامِ بنگلہ دیش سے زیادہ سقوطِ ڈھاکہ پر زور دیا گیا ہے اور کچھ سین تو ایسے ہیں جو شائقین کی آنکھوں سے آنسو رواں کر سکتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فلم میں ڈرامہ مقابلے میں جس طرح اس سانحے کو واقعہ بناکر پیش کیا گیا اور پاکستان سے جانے والوں کا وہاں کس طرح 'استقبال' کیا جاتا ہے، اس سب کی عکس بندی اس بات کو مدنظر رکھ کر کی گئی کہ اس سے دشمنی کا پہلو کم اور دوستی کا پہلو ابھر کر سامنے آئے۔
کیا لیکچر کی زیادتی 'کھیل کھیل میں' کی باکس آفس پر کارکردگی کو متاثر کرے گی؟
اگر 'کھیل کھیل میں' کو کسی بڑی ہالی وڈ فلم کا ساتھ مل جاتا ہے تو پاکستان کے کئی شائقین جو سنیما چھوڑ کر گھر بیٹھ گئے ہیں، انہیں واپس سنیما لانے میں مدد مل سکتی ہے۔
لیکن کیا رومانس کی کمی اور یک طرفہ لیکچر بازی کہیں ان افراد کو بری تو نہیں لگے گی جو سنیما دیکھنے صرف تفریح کے لیے آتے ہیں؟ کیا یہ فلم دونوں ممالک کو قریب لانے میں مدد کرے گی؟ کیا پاکستانی فوج یا اس کے میڈیا ونگ آئی ایس پی آر نے 'کھیل کھیل میں' کی سرپرستی کی ہے؟ فلم پروڈیوسر فضا علی مرزا سے ٹریلر لانچ کے دوران جب یہ سوالات پوچھے گئے تو انہوں نے اس کا جواب نفی میں دیا۔
فلم میں سقوطِ ڈھاکہ سے متعلق ایک خاص زاویہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج کیا کر رہی تھی۔ وہاں وہ کیوں آئی تھی اور وہاں کے مقامی لوگوں نے اس کی مخالفت کیوں نہیں کی تھی۔ ان تمام باتوں کا ذکر فلم میں نہیں ہے۔ اسی طرح پاکستانی فوج کے سرنڈر کو بھی فلم میں صرف ایک ڈائیلاگ میں بیان کیا گیا ہے۔
اس فلم میں ان 'مغربی پاکستانیوں' کے حالات کو دکھایا گیا ہے جو اب بنگلہ دیش میں رہ رہے ہیں۔ لیکن وہ وہاں کہ شہری نہیں ہے اور انہیں نہ وہاں کی حکومت تسلیم کرتی ہے نہ پاکستان کی حکومت انہیں قبول کرتی ہے۔
باکس آفس کے حوالے سے بات کی جائے تو پاکستان میں اس طرح کی فلموں کو کم ہی پذیرائی ملی ہے جو تفریح کے بجائے مقصدیت لیے ہوتی ہوں۔
مرحوم ہدایت کار ریاض شاہد کی 'غرناطہ' ہو، 'یہ امن' ہو یا پھر اداکار ندیم کی بطور پروڈیوسر 'مٹی کے پتلے'۔ ان فلموں کو شائقین نے پسند تو کیا لیکن ان کے بنانے والوں کو اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنی انہیں توقع تھی۔
گانے متاثر کن ہیں، رومانس کا پہلو نہ ہونے کے برابر
فلم کی موسیقی شانی ارشد، اسرار اور شجاع حیدر نے ترتیب دی ہے اور اس میں وہ نیاپن ہے جس کی سننے والوں کو تلاش رہتی ہے۔
انٹرول سے پہلے صرف دو گانوں کو فلم کا حصہ بنایا گیا ہے۔ لیکن اس فلم کا کلائمیکس ہی گانے پر کیا گیا ہے۔
فلم میں رومانس کا پہلو نہ ہونے کے برابر ہے اور اس سے ان نوجوان شائقین کو مایوسی ہوسکتی ہے جو ایک کہانی میں رومانس دیکھنے کو پسند کرتے ہیں۔
اس فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے بلال عباس اور سجل علی، جن کی کیمسٹری کو ڈرامہ 'او رنگ ریزا' میں شائقین نے خوب پسند کیا تھا۔ پر کوئی رومانوی گانا نہیں فلمایا گیا ہے اور نہ ہی ان دونوں کے درمیان کوئی ایسا ڈائیلاگ ہے۔
فلم کے دوسرے ہاف میں کہانی کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے وہ برا نہیں ہے۔ البتہ کچھ شائقین کے بقول اس میں مزید بہتری ہو سکتی تھی۔
کیا 'کھیل کھیل میں' پاکستان بھر میں بند سنیما گھروں کو دوبارہ چلنے میں مدد دے گی؟ کیا اس کی کامیابی یا ناکامی آئندہ آنے والی فلموں کی ریلیز پر اثر انداز ہو گی؟ اس کا فیصلہ تو فلم کی ریلیز کے پہلے ہفتے ہی ہو جائے گا۔