کراچی —
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے اپنے چار کارکنوں کے مبینہ اغواء کے بعد قتل کے خلاف جمعہ کو ’پُرامن سوگ‘ منانے کا اعلان کیا ہے۔ یوم سوگ کا فیصلہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے لندن اور کراچی میں ہونے والے مشترکہ اجلاس میں کیا گیا۔
اجلاس کی تفصیلات میڈیا کو بتانے کی غرض سے کراچی میں پارٹی رہنما ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کراچی میں اخباری کانفرنس منعقد کی جس میں بتایا گیا کہ ایم کیو ایم نے اپنے چار کارکنوں کی لاشیں ملنے پر جمعہ کو سندھ بھر میں پر امن احتجاج اور سوگ منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی وہ جمعہ کو رضاکارانہ طور پر اپنا کاروبار بند رکھیں۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے مطابق بدھ کو میمن گوٹھ کراچی سے جن چار نوجوانوں کی لاشیں ملی ہیں وہ ایم کیو ایم کے کارکن تھے، جنہیں 13 اپریل کی نصف شب کے بعد اسکیم 33سے گرفتار کیا گیا تھا۔ کل تک چھ افراد لاپتہ تھے جن میں سے چار کی لاشیں میمن گوٹھ سے مل گئیں جبکہ دو کارکن تاحال لاپتہ ہیں۔
خالد مقبول کا مزید کہنا تھا کہ اگر کارکن بازیاب نہ ہوئے تو ان کی جماعت بھرپور احتجاج کا حق محفوظ رکھتی ہے۔
یوم سوگ کے اعلان کے ساتھ ہی کراچی میں جمعرات کی شام چار بجے کے بعد سے ہی کاروبار زندگی بند ہونے لگا۔ خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ لوگ رضاکارانہ طور پر آج ہی سے اپنا کاروبار بند کر رہے ہیں۔ تاہم، ’وی او اے‘ کے نمائندے کو مختلف علاقوں کے سروے کے دوران کچھ جگہوں سے جبری دکانیں اور شاپنگ سینٹرز بند کرانے کی اطلاعات ملیں۔
ان خبروں کے میڈیا پر آنے کے کچھ ہی دیر بعد کراچی کے علاوہ سندھ کے دوسرے شہروں سے بھی کاروبار زندگی بند ہونے کی اطلاعات موصول ہونے لگیں، جس سے کراچی سمیت حیدرآباد، سکھر، سانگھڑ، نوابشاہ اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں کشیدگی پھیل گئی۔ متعدد شہروں میں ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔
کراچی میں واقعہ کا سب سے بڑا رد عمل سہراب گوٹھ پر دیکھنے میں آیا، جہاں ایدھی سردخانے کے باہر مشتعل افراد نے احتجاج شروع کردیا، یہاں تک کہ پولیس بلانا پڑی جس نے صورتحال کو قابو میں کرنے کے لئے آتے ہی ہوائی فائرنگ شروع کردی جس سے بھگدڑ مچ گئی۔ ٹریفک معطل ہوگیا۔ جن لوگوں کو رش اور بھگدڑ کے سبب گاڑیاں نکالنے کا موقع نہیں ملا وہ گاڑیاں سڑک پر چھوڑ کر ہی محفوظ مقامات کی طرح دوڑ پڑے جس سے صورتحال مزید خراب ہوگئی۔
’وائس آف امریکہ‘ کا نمائندہ بھی اس وقت سہراب گوٹھ کے قریب ہی موجود تھا۔ اپنی جان بچا کر بھاگنے والے ایک شخص، بشارت حسین نے بتایا کہ وہ کلفٹن سے آرہے تھے اور بفرزون میں رہتے ہیں۔ وہ راستے ہی میں تھے کہ اچانک پیٹرول پمپس بند ہونے لگے، جبکہ انہوں نے کچھ مارکیٹوں کو بھی بند ہوتے ہوئے دیکھا۔ ان کے بقول، ’لوگوں میں تشویش پھیلی ہوئی ہے۔‘
ادھر، ’کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد‘ نے بھی جمعہ کو یوم سوگ کی وجہ سے ٹرانسپورٹ بند رکھنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ چیئرمین پرائیوٹ اسکولز مینجمنٹ، شرف الزمان نے بھی شہر کے تمام نجی اسکول بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ جمعہ کو ہونے والے امتحانات بھی ملتوی کر دیئے گئے ہیں۔
اجلاس کی تفصیلات میڈیا کو بتانے کی غرض سے کراچی میں پارٹی رہنما ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کراچی میں اخباری کانفرنس منعقد کی جس میں بتایا گیا کہ ایم کیو ایم نے اپنے چار کارکنوں کی لاشیں ملنے پر جمعہ کو سندھ بھر میں پر امن احتجاج اور سوگ منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی وہ جمعہ کو رضاکارانہ طور پر اپنا کاروبار بند رکھیں۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے مطابق بدھ کو میمن گوٹھ کراچی سے جن چار نوجوانوں کی لاشیں ملی ہیں وہ ایم کیو ایم کے کارکن تھے، جنہیں 13 اپریل کی نصف شب کے بعد اسکیم 33سے گرفتار کیا گیا تھا۔ کل تک چھ افراد لاپتہ تھے جن میں سے چار کی لاشیں میمن گوٹھ سے مل گئیں جبکہ دو کارکن تاحال لاپتہ ہیں۔
خالد مقبول کا مزید کہنا تھا کہ اگر کارکن بازیاب نہ ہوئے تو ان کی جماعت بھرپور احتجاج کا حق محفوظ رکھتی ہے۔
یوم سوگ کے اعلان کے ساتھ ہی کراچی میں جمعرات کی شام چار بجے کے بعد سے ہی کاروبار زندگی بند ہونے لگا۔ خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ لوگ رضاکارانہ طور پر آج ہی سے اپنا کاروبار بند کر رہے ہیں۔ تاہم، ’وی او اے‘ کے نمائندے کو مختلف علاقوں کے سروے کے دوران کچھ جگہوں سے جبری دکانیں اور شاپنگ سینٹرز بند کرانے کی اطلاعات ملیں۔
ان خبروں کے میڈیا پر آنے کے کچھ ہی دیر بعد کراچی کے علاوہ سندھ کے دوسرے شہروں سے بھی کاروبار زندگی بند ہونے کی اطلاعات موصول ہونے لگیں، جس سے کراچی سمیت حیدرآباد، سکھر، سانگھڑ، نوابشاہ اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں کشیدگی پھیل گئی۔ متعدد شہروں میں ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔
کراچی میں واقعہ کا سب سے بڑا رد عمل سہراب گوٹھ پر دیکھنے میں آیا، جہاں ایدھی سردخانے کے باہر مشتعل افراد نے احتجاج شروع کردیا، یہاں تک کہ پولیس بلانا پڑی جس نے صورتحال کو قابو میں کرنے کے لئے آتے ہی ہوائی فائرنگ شروع کردی جس سے بھگدڑ مچ گئی۔ ٹریفک معطل ہوگیا۔ جن لوگوں کو رش اور بھگدڑ کے سبب گاڑیاں نکالنے کا موقع نہیں ملا وہ گاڑیاں سڑک پر چھوڑ کر ہی محفوظ مقامات کی طرح دوڑ پڑے جس سے صورتحال مزید خراب ہوگئی۔
’وائس آف امریکہ‘ کا نمائندہ بھی اس وقت سہراب گوٹھ کے قریب ہی موجود تھا۔ اپنی جان بچا کر بھاگنے والے ایک شخص، بشارت حسین نے بتایا کہ وہ کلفٹن سے آرہے تھے اور بفرزون میں رہتے ہیں۔ وہ راستے ہی میں تھے کہ اچانک پیٹرول پمپس بند ہونے لگے، جبکہ انہوں نے کچھ مارکیٹوں کو بھی بند ہوتے ہوئے دیکھا۔ ان کے بقول، ’لوگوں میں تشویش پھیلی ہوئی ہے۔‘
ادھر، ’کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد‘ نے بھی جمعہ کو یوم سوگ کی وجہ سے ٹرانسپورٹ بند رکھنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ چیئرمین پرائیوٹ اسکولز مینجمنٹ، شرف الزمان نے بھی شہر کے تمام نجی اسکول بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ جمعہ کو ہونے والے امتحانات بھی ملتوی کر دیئے گئے ہیں۔