ڈائریکٹر جنرل رینجرز سندھ میجر جنرل محمد سعید نے کہا ہے کہ ’’سیکورٹی اداروں کی کراچی میں سیاسی انجینئرنگ کی کوئی پالیسی نہیں۔ ہمارا مقصد کراچی کو تشدد کی سیاست کی جانب واپس جانے سے بچانا ہے‘‘۔
نجی ٹی وی چینل ’دنیا نیوز‘ کے ایک پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے، ڈائریکٹر جنرل سندھ رینجرز نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ کراچی میں گزشتہ دنوں ’پاک سرزمین پارٹی‘ اور ’ایم کیو ایم‘ کے درمیان ہونے والی مفاہمت میں سیکورٹی اداروں کا کوئی کردار تھا۔
البتہ، ان کا یہ کہنا تھا کہ شہر میں تشدد کی پالیسی کو مستقبل میں روکنے کے لئے، جو بھی انتظامات ہوسکتے ہیں وہ ضرور کئے جائیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امن و امان کی بہتری کے لئے سیاسی جماعتوں سے رینجرز حکام سمیت دیگر خفیہ ادرے بھی ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں. جس میں اس حوالے سے کوئی انفرادی رائے تو ضرور دی جا سکتی ہے۔ لیکن، ادارے کی سطح پر ایسی قطعاً کوئی پالیسی ہی موجود نہیں۔
اُن کے بقول، "متحدہ قومی موومنٹ اور پاک سرزمین پارٹی انضمام کریں یا علیحدہ رہیں۔ یہ ان کی مرضی ہے۔ لیکن، ہماری کوشش یہ ہے کہ کراچی میں 1992ء سے 2013ء تک جاری رہنے والی تشدد کی سیاست واپس نہیں آنا چاہیے"۔
میجر جنرل محمد سعید نے دوٹوک الفاظ میں متحدہ اور پی ایس پی کے درمیان کوئی بھی معاہدہ کرانے کا الزام مسترد کیا۔
اُنھوں نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ متحدہ قومی مومنٹ پاکستان کے قیام میں رینجرز کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایم کیو ایم پاکستان 22 اگست 2016 کو رینجرز ہیڈ کوارٹرز ہی میں بنتی تو اس کی قیادت کے خلاف مقدمات کیوں درج ہوتے؟ رینجرز کے سرکاری وکلاء اُس روز ہونے والی ہنگامہ آرائی، جلاؤ گھیراؤ اور ملک سے بغاوت کی دفعات کے تحت دو مقدمات ایم کیو ایم قیادت کے خلاف لڑ رہی ہے۔
واضح رہے کہ اِن مقدمات میں ڈاکٹر فاروق ستار، عامر خان سمیت ایم کیو ایم کی تقریباً پوری اعلیٰ قیادت نامزد ہے۔ اُس روز ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی اشتعال انگیز اور ملک دشمن تقریر پر ہونے والی ہنگامہ آرائی میں ایک شخص ہلاک، متعدد زخمی، گاڑیوں کو نقصان اور اے آر وائی میڈیا ہاؤس میں توڑ پھوڑ ہوئی تھی۔
یہ بیان، مصطفیٰ کمال کے ان بیانات کے ردعمل میں سامنے آیا ہے جس میں پی ایس پی کے چئیرمین نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ایماء پر اُن کی جماعت پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان مفاہمت کرائی گئی تھی۔ مصطفیٰ کمال نے خود کو اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ قرار دینے کی نفی کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی حریف جماعت ایم کیو ایم پاکستان کی پیدائش خود درحقیقت رینجرز ہیڈکوارٹر میں ہوئی تھی۔
اس بیان پر ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے خوب تنقید کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ (سیکورٹی) اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں جوڑ توڑ سے گریز اور ملکی سلامتی پر نگاہ رکھنی چائیے۔
کراچی میں لاپتہ افراد سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے میجر جنرل محمد سعید نے کہا کہ اب تک لاپتہ افراد کے کیسز میں کُل ایک ہزار اڑتالیس افراد رہا کئے گئے۔ جو تفتیش کے بعد بے گناہ ثابت ہونے پر خاندان کے افراد اور بعض سیاسی رہنماؤں کو بطور ضامن بُلا کر چھوڑے گئے۔ یہ افراد کسی دباؤ کے تحت پکڑے گئے تھے نہ ہی انہیں کسی کے کہنے پر چھوڑا گیا۔
کراچی کے علاقے لیاری سے متعلق بھی ڈی جی رینجرز نے اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لیاری گینگ وار کی کارروائیاں کراچی کی تاریخ کا ایک خوفناک پہلو ہے۔ اور وہاں سے یہ گینگ شہر بھر میں حالات خراب کرتے رہے۔ لیکن، ان کا وجود بھی اب ختم کردیا گیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ "آج لیاری میں اسپورٹس فیسٹیول منعقد ہورہے ہیں اور اب وہ نو گو ایریا نہیں رہا، کیونکہ اب وہاں حالات بدل چکے ہیں۔ اس کامیابی کا سہرا سیکورٹی اداروں کی بہتر کارکردگی، سیاسی جماعتوں کی سرپرستی اور وہاں کے عوام کو جاتا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ لیاری گینگ وار کے گرفتار سربراہ عذیر بلوچ پاکستان آرمی کی تحویل میں ہیں اور اس بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔
’دنیا نیوز‘ کے مطابق، میجر جنرل محمد سعید نے کہا کہ تمام جماعتوں کی مشاورت سے شروع کئے گئے آپریشن سے کراچی کا امن بحال کر دیا گیا ہے۔ عوام سے اپیل ہے کہ امن برقرار رکھنے کے لئے سیکیورٹی اداروں کا ساتھ دیں۔
کراچی میں ستمبر 2014 سے جاری ٹارگٹڈ آپریشن میں ہزاروں افراد کو گرفتار، مقدمات قائم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مقابلوں میں سیکڑوں ملزمان مارے جا چکے ہیں؛ جبکہ 500 سے زائد پولیس اور رینجرز اہلکار بھی اس آپریشن کے دوران ہلاک ہوئے۔
اس دوران دہشتگردی کی وارداتوں، بالخصوص ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوأ برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم میں واضح کمی آچکی ہے، جس سے شہر کے برسوں سے خراب حالات میں قدرے بہتری آئی ہے۔ تاہم، اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں اب بھی بے حد زیادہ ہیں۔
کراچی میں امن و امان کی بہتری کے ساتھ ہی سیاست کے میدان میں اتار چڑھاؤ بھی بڑھ چکا ہے۔ پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں کی کوشش ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں شہر سے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے ملک کے سب سے بڑے شہر کی نمائندہ جماعت بنیں۔
تاہم، اس کے لئے کلیدی کردار یہاں پر اردو بولنے والے شہریوں کی اکثریت نے کرنا ہے جن کی تائید حاصل کرنے کے لئے دونوں جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور ابھی سے لگا رہی ہیں۔