پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ ’’ایم کیو ایم نام بدنام ہو چکا ہے۔ لہٰذا، متحدہ قومی موومنٹ نیا نام لے کر آئے۔ میں پاگل نہیں جو ایک لسانی جماعت، ایم کیو ایم کا سربراہ بن جاؤں‘‘۔
سابق صدر نے 23 جماعتوں پر مشتمل نئے سیاسی اتحاد ‘پاکستان عوامی اتحاد’ کا بھی اعلان کیا؛ اور بتایا کہ ’’ملک و قوم کے بہتر مستقبل کیلئے صحیح وقت پر پاکستان آﺅں گا‘‘۔
اسلام آباد میں، آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی دفتر کے پارٹی اجلاس میں دبئی سے ٹیلی فونک خطاب میں، سابق صدر کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں ملکی سیاست کے لیے اہم فیصلے لینے ہیں۔ بڑا فیصلہ ہمارے اکھٹے ہونے کا ہے۔ میں ایک فوجی ہوں اور 40 سال میں کمان کرنا سیکھا ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’ایم کیو ایم نام بدنام ترین ہوچکا ہے۔ لہٰذا، متحدہ قومی موومنٹ یہ نام چھوڑے اور نیا نام لے کر آئے۔ ایم کیو ایم کی صورتحال پر دل دکھا ہے۔ایم کیو ایم اور پاک سر زمین پارٹی کا اتحاد غیر فطری تھا، جو ایک دن بھی نہ چل سکا۔ آپس کے جھگڑے بند کریں اور عوام اور مستقبل کی سوچیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’یہ ممکن ہے کہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی پاکستان عوامی اتحاد میں شامل ہو جائیں‘‘، اور یہ کہ ’’میں پاگل نہیں ہوں جو ایک لسانی جماعت ایم کیو ایم کا ہیڈ بن جاؤں‘‘۔
سابق صدر نے کہا کہ مہاجر کمیونٹی خود کو پاکستانی کہیں۔ مہاجر مل جائیں اور ایک نئے نام سے پارٹی بنالیں۔ حالات میں تبدیلی آ رہی ہے اور اس کے مطابق پاکستان جاؤں گا۔ اس موقع پر حکومت سے کسی قسم کی سیکورٹی نہیں چاہیے‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’سپریم کورٹ اور فوج اچھا کام کر رہے ہیں۔ ہمیں پاکستان کو پٹری پر چڑھانے کے لیے اقدامات کرنا ہیں؛ جب کہ حالات ٹھیک نہیں ہوتے تو قبل از وقت انتخابات ہونا چاہئیں‘‘۔
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ ’’تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان اپنی پارٹی کے بارے میں سوچتے ہیں پاکستان کے بارے میں نہیں‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’نواز شریف کا سیاسی مستقبل ختم ہو چکا ہے، جب کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی ختم ہو چکی ہے‘‘۔
سابق صدر کے نئے سیاسی اتحاد میں چار سے پانچ معروف مذہبی و سیاسی جماعتوں کے علاوہ بعض جماعتیں اتنی غیر معروف ہیں کہ انٹرنیٹ پر بھی ان کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں کہ ان کا وجود کہاں پر ہے۔ ان میں عام آدمی پارٹی، کنزرویٹو پارٹی، پاکستان انسانی حقوق پارٹی اور سوشل جسٹس ڈیموکریٹک پارٹی شامل ہیں۔