رسائی کے لنکس

سدھو موسے والا قتل: ’ اس معاملے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پنجابی گلوکار اور کانگریس کے لیڈر سدھو موسے والا کے قتل کے بعد بھارت کی ریاست پنجاب میں سیاست میں ابال آیا ہوا ہے اور بالخصوص نوجوان طبقہ غم زدہ ہے۔

اتوار کے روز مانسا ضلع کے ’جواہرکے‘گاؤں میں نامعلوم افراد نے سدھو موسے ولا کی گاڑی پر حملہ کیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق ان پر کم از کم 30 راونڈ گولیاں چلائی گئیں جس کی وجہ سے مقتول کا جسم گولیوں سے چھلنی ہو گیا تھا۔ اسپتال پہنچنے پر ڈاکٹروں نے سدھو موسے والا کو مردہ قرار دے دیا تھا۔

وزیر اعلیٰ بھگونت سنگھ مان نے پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اپیل کی ہے کہ کسی حاضر سروس جج سے اس واقعے کی تحقیقات کرائی جائیں۔ جب کہ پولیس نے بھی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) بنا دی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ کے استعفے کا مطالبہ

اس واقعے پر ردِ عمل میں بھارتی پنجاب کی اپوزیشن نے وزیرِ اعلیٰ بھگونت مان کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

ان کا الزام ہے کہ ریاست میں نظم و نسق کی صورتِ حال خراب ہے اور اس کی ذمے دار ریاست میں قائم عام آدمی پارٹی کی حکومت اور اس کے وزیرِ اعلیٰ بھگونت مان ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما منجندر سنگھ سرسا اور ریاستی کانگریس کے صدر امریندر سنگھ وارنگ نے عام آدمی پارٹی کی حکومت کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سیاست دانوں کی جانب سے موسے والا کے اہل خانہ سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

’گینگ وار کا نتیجہ‘

پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کا یہ واقعہ گینگ وار کا نتیجہ ہے۔

ریاست کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس وی کے بھاورا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں لارنس بشنوئی گینگ ملوث ہے۔ اس کے ایک ممبر لکی نے کینیڈا سے اس قتل کی ذمے داری قبول کی ہے۔

پولیس نے اس معاملے میں پیر کے روز چھ افراد کو شبہے کی بنیاد پر گرفتار کرلیا ہے۔

پولیس کی تشکیل دی گئی ایس آئی ٹی ان لوگوں سے پوچھ گچھ کر رہی ہے جب کہ موسے والا کے والد بلکور سنگھ نے سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) سے اس معاملے کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

’دہشت گردی تو ختم ہو گئی لیکن گن کلچر نہیں‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ پنجاب سے دہشت گردی تو ختم ہو گئی حالاں کہ اسے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن گن کلچر کا خاتمہ نہیں ہوا ہے۔ان کے مطابق پنجاب میں گینگ وار بھی چلتی رہتی ہے۔

پولیس سربراہ کے اس بیان سے کہ اس واقعے میں بشنوئی گینگ ملوث ہے، واضح ہوتا ہے کہ ریاست میں گینگسٹرز کے درمیان بالادستی کی جنگ جاری ہے۔

’سدھو کی مقبولیت جان کی دشمن بن گئی‘

مبصرین کے خیال میں بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی کی مقبولیت ہی اس کی جان کی دشمن بن جاتی ہے۔

پنجاب کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے روزنامہ ’ٹریبیون‘ سے وابستہ سینئر صحافی و تجزیہ کار اکو شری واستو اس کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سدھو موسے والا کی مقبولیت اور گینگ وار ان کے قتل کی وجہ بنی۔

انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں جس طرح کا ماحول ہے اور وہاں کے باشندوں کی طرزِ زندگی ہے اس میں ہتھیاروں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔

موسے والا پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ ہتھیاروں کی نمائش کرتے تھے اور اپنے گیتوں کی ویڈیوز میں بھی ان کا استعمال کرتے تھے۔ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی ہتھیاروں کے ساتھ اپنی تصویریں پوسٹ کرتے تھے۔ ان کی یہ بات لوگوں کو پسند تھی۔

اکو سری واستو کے مطابق پنجاب میں لوگ ہتھیاروں کی نمائش کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس قدر ہتھیار دکھائے جاتے ہیں اس قدر ان کا استعمال نہیں ہوتا۔

سال 2021 میں بھی مبینہ گینگ وار کے نتیجے میں قتل کے واقعات پیش آئے تھے۔ بشنوئی گینگ سے وابستہ ایک شخص وِکی مدوکھیڑہ کا قتل ہوا تھا۔ اس معاملے میں دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے تین افراد کو گرفتار کیا تھا۔ انھوں نے پوچھ گچھ کے دوران ایک معروف سنگر کے منیجر کے اس قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ سمجھا جاتا ہے کہ وہ سنگر یہی سدھو موسے والا تھے۔

اکو سری واستو کہتے ہیں کہ پنجاب میں جرائم پیشہ افراد کے کئی گروہ ہیں جن میں باہمی اختلافات چلتے رہتے ہیں۔ سدھو موسے والا اور بشنوئی گینگ میں بھی محاذ آرائی ہوتی رہی ہے۔ حالاں کہ سدھو جرائم پیشہ ذہنیت کے نہیں تھے لیکن انہیں ہتھیار رکھنا پسند تھا۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجاب کے فنکار اپنے پروگراموں کے انعقاد اور ان میں بھیڑ اکٹھا کرنے کے لیے جرائم پیشہ لوگوں کا سہارا لیتے ہیں۔ سدھو بھی ایسے لوگوں کا سہارا لیتے تھے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ سدھو کو انتہائی کم عمری میں مقبولیت حاصل ہو گئی تھی اور ہر طبقے میں ان کے مداح موجود تھے۔ شاید یہ بات بشنوئی گینگ کو پسند نہیں تھی۔ اکو سری واستو کا بھی یہی خیال ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ سدھو کے آخری گانے میں یہ بات شامل تھی کہ ’جوانی میں جنازہ اٹھے گا‘ اور وہی ہوا۔

بھارتی پنجاب میں پاکستانی کپڑے کی دکان کیوں مقبول ہو رہی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:17 0:00

سیکیورٹی پر سوالات

سیاست دانوں، مذہبی شخصیات اور فنکاروں کی سیکیورٹی کم کرنے پر اپوزیشن کی جانب سےحکومت پر نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔

اپوزیشن رہنماؤں کے مطابق حکومت نے 28 مئی کو اہم شخصیات کی سیکیورٹی کم کی اور 29 مئی کو سدھو موسے والا کا قتل ہو گیا۔

یاد رہے کہ ایک روز قبل ہی ریاستی حکومت نے ریاست کے مبینہ وی آئی پی کلچر کو ختم کرنے کے لیے 424 افراد کی سیکیورٹی ختم کی تھی جن میں 29 سالہ سدھو موسے والا بھی شامل تھے۔

اس سے قبل ان کو سیکیورٹی میں چار کمانڈوز تھے جن میں سے دو واپس لے لیے گئے تھے۔دو اہل کار ان کی سیکیورٹی پر مامور تھے لیکن واردات کے روز سدھو موسے والا انہیں اپنے ساتھ لے کر نہیں گئے تھے۔

اکو سری واستو کے مطابق بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ریاستی حکومت نے سدھو کی سیکیورٹی کم کردی تھی جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ لیکن صرف انہی کی سیکیورٹی واپس نہیں لی گئی تھی بلکہ اور بھی بہت سے لوگوں کو فراہم کردہ محافظوں کی تعداد کم کی گئی۔

ان کے نزدیک اس معاملے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک شخص کا قتل ہوا ہے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ لا اینڈ آرڈر کا معاملہ ہے۔

کون ہیں سدھو موسے والا؟

موسے والا کا اصل نام شبھ دیپ سنگھ سدھو تھا۔ ان کے گاؤں کا نام ’موسے‘ ہے جو کہ مانسا ضلع میں واقع ہے۔ اسی لیے وہ سدھو موسے والا کے نام سے مشہور ہوئے۔

سدھو موسے والا ایک متنازع شخصیت رہے ہیں۔ وہ اپنے نغموں میں مبینہ طور پر ہتھیاروں کی نمائش کے ساتھ ساتھ تشدد کو بڑھاوا دینے کی کوشش کرتے تھے جس کی وجہ سے انہیں کئی مرتبہ دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

سدھو موسے والا کی والدہ گاؤں کی مکھیا ہیں۔ سدھو پنجاب سے الیکٹریکل انجینیرنگ کی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 2016 میں کینیڈا چلے گئے تھے۔ انھوں نے 2017 میں اپنا پہلا ٹریک ’سو ہائی‘ جاری کیا تھا۔

اپنے گیتوں کے ذریعے گن کلچر کو فروغ دینے کے الزام میں 2020 میں اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کیپٹن امریندر سنگھ کی حکومت نے آرمز ایکٹ کے تحت سدھو موسے والا کے خلاف کارروائی کی تھی۔

سدھو موسے والا۔
سدھو موسے والا۔

کرونا وبا کے دوران سدھو موسے والا کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ فائرنگ رینج میں کچھ پولیس اہل کاروں کے ساتھ اے کے 47 لیے دکھائی دے رہے تھے۔ اس پر بھی ان کے خلاف کارروائی ہوئی تھی جب کہ پولیس اہل کاروں کو معطل کر دیا گیا تھا۔

موسے والا نے پنجاب اسمبلی انتخابات سے قبل گزشتہ سال دسمبر میں کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس وقت کے پنجاب ریاست کے صدر نوجوت سنگھ سدھو نے انھیں ایک یوتھ آئکن اور بین الاقوامی شخصیت قرار دیا تھا۔

موسے والا نے مانسا اسمبلی حلقے سے کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا لیکن وہ عام آدمی پارٹی کے ڈاکٹر وجے سنگھ سے 63 ہزار ووٹوں سے ہار گئے تھے۔

سدھو موسے والا نے اپنے گیتوں کے توسط سے بالخصوص نوجوانوں کے دلوں میں گھر بنا لیا تھا۔ ان کے گیت نوجوانوں میں کافی مقبول تھے اور یو ٹیوب پر ان کی ویڈٰیو کو لاکھوں میں دیکھا جاتا تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG