مصر میں حزبِ اختلاف کی کالعدم جماعت 'اخوان المسلمین' نے سابق صدر محمد مرسی کی موت کو قتل قرار دیا ہے۔
اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں اخوان نے دنیا بھر میں لوگوں سے مصر کے سفارت خانوں کے سامنے جمع ہو کر احتجاج کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔
اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے محمد مرسی مصر کی حالیہ تاریخ میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والے پہلے صدر تھے جو پیر کو اپنے خلاف جاری ایک مقدمے کی سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں انتقال کر گئے تھے۔
قاہرہ میں تدفین
محمد مرسی کے ایک وکیل عبدالمنعم عبدالمقصود نے امریکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ محمد مرسی کو منگل کی صبح دارالحکومت قاہرہ کے مغربی ضلع نصر سٹی میں واقع ایک قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا ہے۔
محمد مرسی کے صاحبزادے احمد مرسی نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے کہ مصر کی حکومت نے انہیں اپنے والد کی میت آبائی صوبے شرقیہ لے جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد انہیں قاہرہ میں ہی اخوان المسلمین کے دیگر سینئر قائدین کے پہلو میں دفن کر دیا گیا ہے۔
احمد مرسی نے الزام لگایا کہ مصر کی حکومت نے لوگوں کو سابق صدر کی نمازِ جنازہ اور تدفین میں شرکت سے بھی روکا اور صرف خاندان کے چند افراد کو ان کی آخری رسومات میں شرکت کی اجازت دی۔
محمد مرسی کے اہلِ خانہ نے بھی ان کی موت کو قتل قرار دیا ہے۔ سابق صدر کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ وہ 2013ء سے مسلسل قید میں تھے جس کے دوران انہیں کئی سال تک قیدِ تنہائی میں بھی رکھا گیا اور انہیں ڈاکٹروں تک رسائی نہیں دی گئی۔
کمرۂ عدالت میں موت
مصر کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق 67 سالہ سابق صدر کو پیر کے روز قاہرہ کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں ان کے خلاف فلسطینی تنظیم 'حماس' کے ساتھ رابطوں اور اس کے لیے جاسوسی کرنے کے الزامات میں مقدمے کی سماعت تھی۔
عدالتی ذرائع نے بین الاقوامی خبر رساں اداروں کو بتایا ہے کہ انتقال سے قبل محمد مرسی نے کمرۂ عدالت میں جج کو مخاطب کر کے کئی منٹ تک خطاب کیا جس کے فوراً بعد وہ گر گئے اور بے ہوش ہو گئے۔
انہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں بعد ازاں ڈاکٹروں نے مقامی وقت کے مطابق شام 4:50 منٹ پر ان کی موت کا اعلان کیا۔
مصر کے دفترِ استغاثہ کے مطابق طبی معائنے میں محمد مرسی کے جسم پر کسی نئے زخم یا تشدد کی علامات نہیں ملی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ سابق وزیرِ اعظم کی موت دل کے دورے کی وجہ سے ہوئی ہے۔
محمد مرسی کا دورِ اقتدار
امریکہ سے انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کرنے والے محمد مرسی کا شمار اخوان المسلمین کے مرکزی قائدین میں ہوتا تھا جو 2012ء میں مصر کے صدر بنے تھے۔
انہیں اخوان نے مصر میں تین عشروں سے حکمران حسنی مبارک کے طویل اقتدار کے عوامی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں خاتمے کے بعد 2012ء میں ہونے والے انتخابات میں اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا۔
تاہم محمد مرسی کو اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی ملک میں جاری سخت سیاسی تقسیم اور مخالفت، پرتشدد مظاہروں اور معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
مصر کی فوج نے ایک سال بعد ہی 2013ء میں محمد مرسی کا تختہ الٹ دیا تھا اور ان کی جماعت اخوان المسلمین پر پابندی عائد کر دی تھی۔ دائیں بازو کے نظریات کی حامل اخوان کا شمار مصر کی سب سے مضبوط اور منظم سیاسی جماعت میں ہوتا تھا۔
محمد مرسی کا تختہ الٹنے اور اخوان پر پابندی کے بعد مصر کی فوج نے ملک بھر میں اخوان کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا تھا جس میں محمد مرسی سمیت جماعت کی تمام قیادت اور ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ان افراد کی اکثریت تاحال قید میں ہے اور مختلف سنگین نوعیت کے مقدمات میں یا تو سزائے موت اور عمر قید سخت سزائیں پا چکی ہے یا ان کے خلاف مقدمات کی سماعت جاری ہے۔
موت کی تحقیقات کا مطالبہ
انسانی حقوق کی تنظیمیں ان مقدمات کی شفافیت اور جیلوں میں قید اخوان کے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مبینہ ناروا سلوک پر مصر کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی آئی ہیں۔
امکان ہے کہ محمد مرسی کی دورانِ حراست موت کے نتیجے میں مصر کی حکومت پر بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہو گا۔
انسانی حقوق کی دو معتبر بین الاقوامی تنظیموں – ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل – نے محمد مرسی کی موت پر مصر کی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ان کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے محمد مرسی کی موت کا ذمہ دار "مصر کے ظالموں" کو قرار دیتے ہوئے انہیں "شہید" ٹھہرایا ہے۔