قومی ادارہ برائے احتساب (نیب) نے بلوچستان میں چاغی سے سونا اور دیگر دھاتیں نکالنے کے بڑے منصوبے ریکوڈک کے 30 سالہ ریکارڈ کی چھان بین کے بعد کھربوں روپے کی بدعنوانی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
ترجمان نیب کے مطابق نیب نے ملزمان کے خلاف نا قابلِ تردید ثبوت اور شواہد جمع کر لیے ہیں۔ تحقیقات کے بعد نیب نے حکومتِ بلوچستان کے سابق اعلیٰ حکام سمیت 26 افراد کے خلاف ریفرنس دائر کیا ہے۔
نیب ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ملزمان نے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے قومی مفاد کو نقصان پہنچایا۔
بیان کے مطابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نیب بلوچستان کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی ٹیم نے شواہد مختلف محکمہ جات کے پرانے ریکارڈ سے حاصل کیے ہیں۔
جمعرات کی صبح کوئٹہ میں احتساب عدالت کے جج منور شاہوانی کی عدالت میں سابق گورنر امیر الملک مینگل، سابق چیف سیکریٹری کے بی رند سمیت محکمہ معدنیات، محکمہ مال سمیت دیگر محکموں کے 26 سابق اعلیٰ افسران کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔
ریفرنس کا متن
نیب کے ریفرنس کے متن کے مطابق سال 2015 میں محکمۂ داخلہ بلوچستان نے نیب کو مذکورہ افسران کے خلاف انکوائری کرنے کا اختیار دیا تھا جس پر کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا۔
ترجمان نیب کے مطابق 1993 میں بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور بروکن ہلز پروپرائیٹری (بی ایچ پی) نامی آسٹریلیا کی ایک کمپنی کے مابین چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر کا ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں حکومتِ بلوچستان بالخصوص بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے افسران نے آسٹریلوی کمپنی کو غیر قانونی طور پر فائدہ پہنچایا۔
بیان کے مطابق قومی مفادات سے متصادم اس معاہدے کی شرائط کو مزید مستحکم کرنے کے لیے نہ صرف غیر قانونی طریقے سے بلوچستان مائینگ کنسیشن رولز میں ترامیم کی گئیں بلکہ بار بار غیر قانونی طور پر ذیلی معاہدے کر کے ٹیتھیان کاپر کمپنی نامی نئی کمپنی کو متعارف کر کے مزید مالی فوائد حاصل کیے گئے۔
علاوہ ازیں محکمہ مال کے افسران کی جانب سے زمین کی الاٹمنٹ اور دیگر امور میں بھی شدید بے قاعدگیاں سامنے آئیں اور ملزمان نے اس مد میں مالی فوائد لینے کا اعتراف بھی کیا۔
نیب حکام کے مطابق ریکارڈ کی جانچ پڑتال اور گواہان کے بیانات سے کئی حقائق سامنے آئے جس کے مطابق ٹیتھان کاپر کمپنی کے عہدیداران سرکاری حکام کو رشوت دینے اور ناجائز فوائد حاصل کرنے میں ملوث پائے گئے۔
عدالت نے فریقین کو 18 نومبر کو سماعت کے لیے نوٹسز جاری کیے ہیں۔
ریکوڈک منصوبے کی تاریخ
ریکوڈک بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب 'ریت کا ٹیلہ' ہے۔
ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی کے ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ایک قصبے کا نام ہے جہاں حکام کے مطابق قیمتی دھاتیں دریافت ہو چکی ہیں۔
ریکوڈک کو دنیا میں قیمتی معدنیات کے بڑے ذخائر میں شمار کیا جاتا ہے۔ اندازوں کے مطابق ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی مالیت کئی ارب ڈالرز سے زائد ہے۔
ٹیتھیان کمپنی کو 1993 میں بلوچستان کے علاقے چاغی میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا لائسنس جاری کیا گیا تھا۔ لیکن پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے 2011 میں بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کے لیے ٹیتھیان کمپنی کو دیا جانے والا لائسنس منسوخ کر دیا تھا۔
ٹیتھیان کمپنی نے 2012 میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف عالمی بینک کے ثالثی ٹریبونل سے رجوع کیا تھا اور پاکستان سے 16 ارب ڈالرز ہرجانہ وصول کرنے کا دعویٰ دائر کیا تھا۔البتہ دو ماہ قبل ستمبر 2020 میں بین الاقوامی ثالثی ٹربیونل نے ریکوڈک پراجیکٹ کیس میں پاکستان پر عائد چھ ارب ڈالرز جرمانے پر مستقل حکم امتناع جاری کیا تھا۔