رسائی کے لنکس

پانی کی تلاش کے لیے تین ارب کلومیٹر کا سفر کیوں؟


مشتری کے چاند یوروپا پر بھیجے جانے والے سائنسی مشن ’یوروپا کلپر‘ کی ایک تصوراتی تصویر جس میں خلائی جہاز کو یوروپا کے گرد چکر لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ فوٹو ناسا
مشتری کے چاند یوروپا پر بھیجے جانے والے سائنسی مشن ’یوروپا کلپر‘ کی ایک تصوراتی تصویر جس میں خلائی جہاز کو یوروپا کے گرد چکر لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ فوٹو ناسا
  • زمین سے باہر پانی کی تلاش میں ناسا کا ایک بڑا راکٹ مشتری کے چاند یوروپا کے سفر پر روانہ ہو رہا ہے۔
  • یہ راکٹ چھ سال کے سفر کے بعد اپریل 2030 میں اپنی منزل پر پہنچے گا۔
  • یوروپا زمین کے چاند سے قدرے چھوٹا ہے لیکن سائنس دانوں کے اندازوں کے مطابق وہاں زمین کے تمام سمندروں سے دگنا پانی موجود ہے۔
  • پانی کی موجودگی سے وہاں کسی شکل میں زندگی کی موجودگی کو تقویت ملتی ہے۔
  • اس سفر کے دوران راکٹ 3 ارب کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گا۔

ناسا 10 اکتوبر کو پانی کی تلاش کے لیے اپنا ایک سائنسی مشن طویل سفر پر روانہ کر رہا ہے جو تقریباً تین ارب کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد مشتری کے چاند یوروپا کے مدار میں پہنچے گا۔ یہ طویل اور پیچیدہ سفر چھ سال میں طے ہو گا۔

اس طویل اور دشوار سفر کے لیے اسپیس ایکس کا طاقت ور فالکن راکٹ استعمال ہو گا۔ یہ اب تک خلا میں بھیجے جانے والے راکٹوں میں سے سب سے بڑا ہے، شمسی پینلز کے ساتھ اس کا پھیلاؤ 100 فٹ ہے۔

پانی کی تلاش کے اس مشن پر اخراجات کا اندازہ 5 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اس پراجیکٹ پر ایک ہزار سے زیادہ ماہرین کام کر رہے ہیں جن میں مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے 220 سے زیادہ سائنس دان بھی شامل ہیں۔

اس مشن کو سب سے بڑا خطرہ مشتری کے گرد موجود تابکاری سے ہے جو راکٹ میں نصب سائنسی آلات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ مشتری کا مقناطیسی میدان زمین کے مقابلے میں 20 ہزار گنا زیادہ طاقت ور ہے جس کی گردش سے طاقت ور تابکار ذرات پیدا ہوتے ہیں۔

راکٹ اپنی گردش کے دوران بار بار تابکار ماحول سے گزرے گا۔ سائنس دان اس وقت اپنی زیادہ توجہ اس حفاظتی نظام پر مرکوز کیے ہوئے ہیں جو سائنسی آلات کو تابکاری سے محفوظ رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

خلائی جہاز میں نصب کیمرے، ریڈار اور دیگر آلات مشتری کے چاند یوروپا میں موجود پانی کی مقدار اور اس سیارچے کے بارے میں سائنسی معلومات اکھٹی کر کے زمینی مرکز کو بھیجیں گے جس سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ آیا یوروپا کی برفیلی سطح کے نیچے ممکنہ سمندر زندگی کے لیے موزوں ہے۔ مشتری کے چاند کے گرد گردش کرنے والے خلائی جہاز کانام یوروپا کلپر (Europa Clipper) رکھا گیا ہے۔

اس پراجیکٹ کے منیجرجارڈن ایونز نے بتایا کہ یوروپا کلپر ، چاند کی سطح سے تقریباً 25 کلومیٹر کے فاصلے سے 49 بار گزرے گاجس کے دوران اسے شدید تابکاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے ہر چکر کے درمیان تین ہفتوں کا وقفہ رکھا ہے تا کہ خلائی جہاز کے آلات تابکاری کے اثرات سے بحال یا یوں کہہ لیں کہ صحت یاب ہو سکیں۔

یوروپا میں کتنا پانی ہے

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یوروپا میں برف کی 15 سے 25 کلومیٹر موٹی تہہ موجود ہے جس کی گہرائی 60 سے 150 کلومیٹر تک ہو سکتی ہے۔ اس چاند کا قطر زمین کے مقابلے میں ایک چوتھائی ہے جب کہ پانی کی مقدار زمین کے تمام سمندروں کی مجموعی مقدار سے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ تاہم یہ نمکین پانی ہے۔

اس خلائی مہم کا بنیادی مقصد یہ جانچنا ہے کہ آیا مشتری کا یہ برفیلا چاند

رہائش کے قابل ہے یا نہیں۔

انسان زمین چھوڑنا کیوں چاہتا ہے

اس کا سیدھا سادا جواب ’تجسس‘ ہے۔ انسان یہ جاننا چاہتا ہے کہ کائنات کے اس وسیع و عریض نظام میں اس قریب ترین ہمسائے کون ہیں یا پھر وہ اپنے نظام شمسی میں تنہا ہے۔

انسان یہ بھی چاہتا ہے کہ اگر اس کی ہمسائیگی میں کوئی ہے تو اس سے رابطے کی صورت کیا ہو سکتی ہے۔ وہ ان سیاروں تک اپنی آمد ورفت بڑھانا چاہتا ہے جہاں زندگی کے امکانات موجود ہیں۔

ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ جس رفتار سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور اس کی آب و ہوا اور ماحول بدل رہا ہے، بہت ممکن ہے کہ آنے والی صدیوں میں یہ زندگی کے لیے ساز گار نہ رہے۔ انسان وہ لمحہ آنے سے پہلے ہی کسی اور سیارے کو اپنا ٹھکانا بنانا چاہتا ہے۔

آئندہ صدیوں میں یا اس سے بھی طویل عرصے میں زمین کے حالات کا تبدیل ہونا قابل فہم ہے کیونکہ ہمارے آس پاس موجود کئی سیارے ایسے بنجر اور ویران نہیں تھے جیسے وہ اب دکھائی دیتے ہیں۔

زمین کے قریب ترین سیارے مریخ کی ہی مثال لے لیں، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کروڑں سال پہلے وہاں جھیلیں اور دریا تھے۔ پھر وقت کے سفر میں کمزور کشش ثقل کے باعث پانی بخارات بن کر خلا کی وسعتوں میں کہیں گم ہو گیا۔ اور صرف وہی پانی محفوظ رہا جو گہرائی میں چٹانوں کے نیچے کہیں پھنسا ہوا ہے۔مریخ پر بھیجی جانے والی سائنسی مہمات میں پانی کی تلاش سرفہرست ہوتی ہے۔

یوروپا پر پانی کی بھاری موجودگی کیوں ہے؟

ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ ہمارے نظام شمسی کے تقریباً سبھی سیاروں اور ان کے چاندوں میں کسی وقت میں، مائع، برف یا بخارات کی شکل میں پانی موجود تھا جو آہستہ آہستہ خلا میں تحلیل ہو گیا۔ اب صرف زمین ہی وہ واحد سیارہ ہے جہاں سب سے زیادہ مقدار میں مائع حالت میں پانی پایا جاتا ہے ۔ جب کہ برف کی شکل میں سب سے زیادہ پانی یوروپا پر موجود ہے۔

یوروپا کی کشش ثقل زمین کے مقابلے میں چھ گنا کم ہے، لیکن وہ مشتری کی کشش ثقل کے اثر میں ہے۔ مشتری کا مقناطیسی میدان زمین سے 20 ہزار گنا زیادہ طاقت ور ہے جو یوروپا سے کسی چیز کو خلا میں تحلیل ہونے نہیں دیتا۔

یوروپا پر زندگی کا کتنا امکان ہے؟

بظاہر مشتری کے اس چاند پر زندگی کا امکان بہت کم ہے کیونکہ وہاں تابکاری کی سطح خطرناک حد تک بلند ہے۔ وہاں کا درجہ حرارت صفر سے 260 درجہ سینٹی گریڈ تک نیچے رہتا ہے۔لیکن دوسری جانب وہاں کی لطیف فضا میں آکسیجن موجود ہے اور وہاں وہ تین بنیادی اجزا بھی پائے جاتے ہیں جو زندگی شروع کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ اجزا پانی، مخصوص کیمیائی مرکبات اور توانائی ہیں۔ ان تین اجزا کی موجودگی میں طویل مدت کے دوران جراثیمی زندگی شروع ہو سکتی ہے۔

یوروپا بھی لگ بھگ چار ارب سال پہلے اسی وقت وجود میں آیا تھا جب ہمارا نظام شمسی بنا تھا۔ سائنس دانوں کے خیال میں زندگی کی شروعات کیلئے یہ ایک مناسب مدت ہے۔

زمین پر بھی زندگی کا آغاز پانی میں ہی جراثیمی شکل میں ہوا تھا جو کروڑوں برسوں کے سفر میں ارتقا کے ان گنت مراحل سے گزر کر لاکھوں روپ دھار چکا ہے۔

ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ زمین پر زندگی کسی شہابیے کے ذریعے خلا سے آئی تھی اور یہاں کے سازگار ماحول نے اسے پھلنے پھولنے کے اسباب فراہم کیے۔

یوروپا کا سفر اتنا لمبا کیوں ہے؟

ناسا کی خلائی گاڑی ’یوروپا کلپر‘ کو اپنی منزل تک پہنچنے میں چھ سال کا عرصہ لگے گا۔ جب کہ ایک تیز رفتار راکٹ زمین سے یوروپا کا فاصلہ 77 کروڑ میل کا سفر دو سال میں طے کر سکتا ہے۔ ناسا کا راکٹ 77 کروڑ میل کے چھوٹے راستے کی بجائے تین ارب کلومیٹر کا لمبا راستہ اختیار کرے گا۔ اس کی وجہ بھی بڑی دلچسپ ہے۔ راکٹ کو اپنے سفر کے لیے بھاری مقدار میں ایندھن درکار ہوتا ہے، جب کہ اس میں ایندھن کی گنجائش محدود ہوتی ہے۔ راکٹ کے سائز کو چاہے کتنا ہی بڑھا لیا جائے اور اس میں چاہے کتنا ہی ایندھن بھر لیا جائے، اگر سفر برسوں کا ہو توایندھن کم پڑ جاتا ہے۔

سائنس دان یوروپا کے طویل سفر کے لیے زمین اور مشتری کی کشش ثقل سے مدد لے رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں راکٹ کو ایک خاص رفتار کے ساتھ زمین کے مدار میں داخل کر دیا جائے۔اور زمین کے گرد چکر لگانے لگے گا۔ اپنی رفتار کی وجہ سے اس کے چکر کا دائرہ بڑا ہوتا جائے گا اور یہاں تک کہ وہ مشتری کے مدار میں پہنچ جائے گا۔ اس موقع پرراکٹ انجن دوبارہ چلا کر اسے اپنی منزل کی سمت میں ڈال دیا جائے گا۔ یہ لمحہ اپریل 2030 میں آئے گا۔

یوروپا خلائی مہم میں کیا مختلف ہے؟

یوروپا مہم پر بھیجا جانے والا راکٹ اب تک کا سب سے بڑا راکٹ ہے۔ اپنے سولر پینلز سمیت اس کا سائز 100 فٹ ہے۔اس میں 24 انجن نصب ہیں۔ خلائی راکٹ میں 9 قسم کے سائنسی آلات لگائے گئے ہیں۔

چونکہ یہ مہم زیادہ تر پانی پر مرکوز ہے، اس لیے معروف امریکہ شاعرہ ایڈالی مون کی پانی پر لکھی ہوئی نظم ایک بوتل میں رکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی 103 زبانوں میں جس طرح پانی کہا جاتا ہے، اس کی ریکارڈنگ میں راکٹ میں رکھی گئی ہے۔ان زبانوں میں ہندی اور بھارت کی کئی علاقائی زبانیں بھی شامل ہیں تاہم ان میں اردو نہیں ہے۔

آپ کو یہ بات بھی شاید دلچسپ لگے کہ مشتری کے 95 چاند ہیں جن میں یوروپا چوتھے نمبر پر ہے۔ یہ چاند زمین کے چاند سے قدرے چھوٹا ہے اور ہمارے شمسی نظام میں موجود تمام چاندوں میں وہ چھٹے درجے پر ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG