نیٹو کے معاون سیکریٹری جنرل برائے آپریشنز، جان منزا نے کہا ہے کہ نیٹو کا افغان مشن تنازعے کے شکار ملک کی تعمیر نو میں الجھ کر دراصل سست روی کی راہ پر چل پڑا تھا۔ انھوں نے کہا کہ عسکری تنظیم کے اس سیکیورٹی آپریشن کا کام تعمیر نہیں تھا، لیکن اس کا کام 'مشن کریپ' میں تبدیل ہو چکا تھا۔
وہ اس وقت نیٹو کے مشن کی جانب سے تقریباً 20 سال تک افغانستان سے وابستہ رہنے اور حاصل کردہ کارکردگی اور تجربے کے بارے میں رپورٹ تیار کر رہے ہیں۔
جان منزا نے بدھ کے روز یورپی یونین کے قانون سازوں کی ایک سماعت کے دوران اس بات کی تفصیل بتائی کہ کس طرح سال 2003ء میں 5000 فوج کی تعیناتی کے بعد سال 2009ء میں یہ تعداد بڑھ کر 100،000ہوگئی۔
انھوں نے کہا کہ حالانکہ بین الاقوامی برادری کو پتا لگ چکا تھا کہ اہداف پورے نہیں ہو رہے ہیں۔ لیکن، بقول ان کے،'' خراب پیش رفت کے باوجود، مزید کام کرو'' پر زور دیا جا رہا تھا۔
منزا حاصل کردہ سبق سے متعلق اپنی تفصیلی رپورٹ نیٹو کے وزرائے خارجہ کے آئندہ اجلاس کے سامنے پیش کریں گے، جس کا دو روزہ اجلاس 30 نومبر اور یکم دسمبر کو منعقد ہوگا۔ انھیں رپورٹ لکھنے کا کام اس وقت دیا گیا جب افغان صدر ملک سے باہر چلے گئے اور نیٹو کی تربیت یافتہ افغان فوج اپنا کام نہ کر سکی؛ جب کہ صدر جو بائیڈن اعلان کر چکے تھے کہ امریکی فوج کا انخلا ہوگا۔ اس صورت حال میں طالبان کے لیے اقتدار پر قبضہ مشکل نہیں رہا۔
منزا نے یورپی یونین کے قانون سازوں کو تجربے کے ان اسباق سے متعلق بتایا جنھیں ان کی ٹیم زیر غور لا رہی ہے؛ اس رپورٹ کو مرتب کرنے کے سلسلے میں عسکری اور سیاسی ماہرین سے مدد لی جا رہی ہے، جن میں افغانستان میں تعینات رہنے والے ماہرین بھی شامل ہیں۔ لیکن جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس مشن کی تکمیل میں لگ جو ہمارا کام نہیں تھا۔
نیٹو نے سال 2003ء میں افغانستان میں بین الاقوامی سیکیورٹی کی اعانتی فورس کے فرائض سنبھالے، جس سے تقریباً دو برس قبل امریکی قیادت والی اتحادی فوج نے طالبان کو ہٹایا اور اس وقت کے القائدہ کے لیڈر، اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی پاداش میں طالبان کی حکومت کی کایا پلٹ دی۔
منزا نے اس بات کی وضاحت کی کہ ابتدائی طور پر کابل کے قرب و جوار میں تقریباً 5000 فوج تعینات تھی، لیکن تین برسوں کے اندر اس کی توجہ دہشت گردی کے اصل اسباب دور کرنے کی جانب سے تبدیل ہو کر ملک کے تعمیر نو کی صورت اختیار کر گئی، جو ملک نسلی اور قبائلی تقسیم کا شکار تھا اور جس کی آبادی تعلیم یافتہ نہیں تھی۔
سال 2006ء میں نیٹو کی فوجی کمک بڑھ کر تقریباً 60،000ہوگئی، جن کی سول اور عسکری ٹیمیں ملک بھر میں ہھیل گئیں، جس ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں تھی۔ وہاں یہ کوشش کی گئی کہ معیشت فروغ پائے اور تقریباً تمام صوبوں میں بہتر حکمرانی قائم کی جائے۔
انھوں نے کہا کہ کمک میں اتنا اضافہ کرنے کے باوجود ہمیں مقاصد حاصل نہیں ہو پا رہے تھے۔ بقول ان کے، ''سرکشی میں ہھر بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ ملک بدعنوانی میں بری طرح پھنس چکا تھا اور سرکاری کارکردگی میں بہتری کے آثار نہیں تھے''۔
منزا نے بتایا کہ ''جس کمیٹی کا میں سربراہ ہوں اس میں آپ کو پوچھنا پڑتا ہے، اور ہم معلوم کرتے رہتے ہیں، آیا یہ اہداف حقیقت پر مبنی تھے، جو اُس وقت ہمارے ذمّے تھے؟'' انھوں نے کہا کہ حالانکہ نہیں لگتا تھا کہ بین الاقوامی برادری یہ اہداف حاصل کر رہی ہے، پھر بھی ہر پیش رفت پر ہمارا یہی کہنا ہوتا تھا کہ اورزیادہ کام کرو۔''
سال 2009ء میں امریکی صدر براک اوباما کے احکامات پر نیٹو افواج میں مزید اضافہ کیا گیا اور اس کی تعداد بڑھ کر 100،000 ہوگئی، جب کہ افغانستان کے لیے بین الاقوامی امداد میں کافی اضافہ کیا گیا۔ ان اضافی رقوم کے بعد ملک میں سرایت کردہ بدعنوانی میں مزید اضافہ دیکھا گیا۔
منزا نے کہا کہ ''اب جب ماضی پر نظر ڈالی جاتی ہے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایک طویل عرصے تک تعمیر نو کی کوششیں جاری نہیں رہ سکتی تھیں، اور مختلف صوبوں تک ان کوششوں کے بہتر ثمرات نمایاں نہیں ہوئے''۔
منزا نے اپنی کمیٹی کے یہ ابتدائی نتائج گزشتہ ہفتے منعقد ہونے والے نیٹو کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں پیش کیے۔ وہ کمیٹی کی حتمی رپورٹ اتحاد کے وزرائے خارجہ کے اگلے اجلاس میں پیش کریں گے، جو نومبر کی 30 اور یکم دسمبر کو منعقد ہوگا۔
[اس خبر میں شامل معلومات ایسو سی ایٹڈ پریس کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ سے لی گئی ہے]