پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم محمد نواز شریف جمعے کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوئے جہاں ان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنسز کی مختصر سماعت ہوئی۔
سابق وزیراعظم کے ہمراہ ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر بھی احتساب عدالت میں پیش ہوئے جو پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف غیر قانونی اثاثے بنانے کے الزام میں دائر ریفرنسز کی سماعت کر رہی ہے۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف بیرونِ ملک جائیدادوں سے متعلق ریفرنسز کی سماعت کی۔
تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ریفرنسز کو یکجا کرنے سے متعلق درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ نہ ملنے کی وجہ سے سماعت بغیر کسی کارروائی کے 7 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر گواہوں کو جاری طلبی کے سمن معطل کردیے ہیں اور وہ صرف ریفرنسز کو یکجا کرنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرے گی۔
جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے تک دلائل نہیں سن سکتے۔ آئندہ سماعت پر گواہوں کو بھی نہ بلایا جائے۔
دورانِ سماعت جج نے کہا کہ ایک نظر ملزمان کو دیکھنا چاہتا ہوں جس پر نوازشریف کمرۂ عدالت میں کھڑے ہوگئے۔
سماعت کے دوران نوازشریف نے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں 50، 50 لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے بھی جمع کرادیے۔ انہوں نے عدالت میں حاضری یقینی بنانے کے لیے یہ مچلکے جمع کرائے۔
بعد ازاں سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی۔
"زرداری کسی کو خوش کرنے کے لیے تنقید کر رہے ہیں"
کمرۂ عدالت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری انہیں گالیاں نہیں دے رہے بلکہ کسی اور کو خوش کر رہے ہیں۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ٹیکنو کریٹ حکومت سے متعلق 17 سال سے سن رہے ہیں لیکن ان کے بقول یہ کسی کی خواہش ہوسکتی ہے جو کبھی پوری نہیں ہوگی۔
انہوں نے شریف خاندان میں اختلافات کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ باہر سے اختلافات دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوگی۔
سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے پاکستان کی معیشت کو ٹھیک کیا لیکن کیا انہیں سی پیک کی سرمایہ کاری اور کراچی میں امن لانے کی سزا دی جا رہی ہے؟
نوازشریف نے سوالات اٹھائے کہ ان پر کرپشن کے کیا الزامات ہیں؟ کیا انہوں نے کسی ٹھیکے میں کمیشن لیا ہے؟ سپریم کورٹ کے ججز نے کہا یہ کرپشن کا کیس نہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔
سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ وہ ایسی عدلیہ کے حامی نہیں جو ڈکیٹیر کے لیے راہ ہموار کرے، آزاد عدلیہ کی جدوجہد کی لیکن نظریۂ ضرورت ایجاد کرنے والی عدلیہ کا حامی نہیں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ٹکراؤ کی بات ہوتی ہے، ہمیں ٹکر مارنے والے کو کوئی نہیں پوچھتا، جب بھی مارچ آتا ہے تو مارچ کی افواہیں گردش کرتی ہیں۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ کبھی نہیں دیکھا کہ کسی کیس میں سپر جج نگرانی کر رہا ہو، میرے ریفرنس میں نگران جج کیوں؟ انہوں نے کہا کہ ہزاروں کیس چل رہے ہیں، کسی کی نگرانی نہیں ہو رہی، توہینِ عدالت باہر نہیں، اندر سے بھی ہو سکتی ہے۔