امریکہ میں محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بتایا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر طالبان کے مزید دو رہنماوں پر سفر کی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ بھی افغان عوام کے حقوق کی خلاف ورزی کریں گے، ان کو قیمت چکانا پڑے گی۔
محکمہ خارجہ میں بریفنگ کے دوران نیڈ پرائس نے کہا، ’’ان طالبان عہدیداروں پر قیمت چکانے اور نتائج بھگتنے کے لیے یہ پابندی لگائی گئی ہے جو افغان عوام کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہم نے گزشتہ کل یہ اقدام لیا تھا اور دو طالبان عہدیداروں پر ویزا کی پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ عہدیدار طالبان کے سینئر لیڈر ہیں اور ہم اس طرح کی پابندیاں عائد کرنے کی مشق جاری رکھیں گے جس کے تحت ایسے طالبان عہدیداروں پر پابندیاں عائد کی جائیں گی اور وہ مناسب نتائج کا سامنا کرتے رہیں گے۔‘‘
دوسری جانب افغانستان میں اسلام پسند حکومت نے اپنے بعض عہدیداروں کے خلاف پابندیوں پر تنقید کی ہے اور ان پابندیوں کو افغانستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے قیام میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔
افغانستان کی اسلام پسند طالبان حکومت نے اپنے بعض لیڈروں کے خلاف امریکہ کی نئی تعزیرات پر بدھ کے روز نکتہ چینی کی۔ اور انہیں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی پیش رفت میں ایک رکاوٹ قرار دیا۔
یہ رد عمل اس کے ایک روز بعد آیا جب امریکہ نے ایسے موجودہ اور سابقہ طالبان رہنماؤں اور دوسروں کے خلاف بطور سزا ویزا پر پابندی کی پالیسی کا اعلان کیا جن کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ وہ پابندی لگانے والی پالیسیوں اور تشدد کے ذریعے افغان خواتین اور لڑکیوں کو دبانے کے عمل کے یا تو براہ راست ذمہ دار ہیں یا اس کام میں شریک رہے ہیں۔
طالبان کی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے ایسے فیصلے دو طرفہ تعلقات کو منفی طور پر متاثر کر سکتے ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام تنازعات سفارتی ذریعوں سے حل کئے جانے چاہئیں۔ اور ایسے فیصلوں پر جو دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں ہیں، نظر ثانی کی جانی چاہئیے۔
بیان میں امریکی فیصلے کے وقت کے بارے میں بھی سوال اٹھایا گیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ اعلان گزشتہ ہفتے دوحہ بات چیت کے بعد کیا گیا، جس میں دونوں ملکوں کے اعلی عہدیدار شریک تھے اور جہاں تقریباً تمام اہم معاملات پر تفصیل سے تبادلہ خیالات ہوا تھا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے اپنے ذرائع سے دعوی کیا تھا کہ افغانستان کے اندر القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد امریکہ کے کسی عہدیدار نے پہلی مرتبہ طالبان کے ساتھ دوحہ میں بالمشافہ ملاقات کی ہے۔
سی این این کے دعوے کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور محکمہ خارجہ کے ایک اعلی عہدیدار کو، جو افغانستان کے معاملات میں اہم ذمہ داریاں رکھتے ہیں، قطر کے دارالحکومت دوحہ بجھوایا تھا تاکہ وہ طالبان کے اس وفد سے مذاکرات کر سکیں جس کی قیادت طالبان کے انٹیلی جنس کے سربراہ عبدالحق واسق کر رہے تھے۔
ایمن الظواہری کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد امریکہ نے کہا تھا کہ القاعدہ کے رہنما کا افغانستان کے اندر موجود ہونا طالبان امریکہ دوحہ معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے۔