نیپال میں گزشتہ ہفتے آنے والے تباہ کن زلزلے میں جمعہ کو مرنے والوں کی تعداد 6200 سے تجاوز کر گئی اور اس بنا پر اس میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ دنیا بھر سے آئی امدادی ٹیمیں مختلف متاثرہ علاقوں میں منہدم عمارتوں سے لاشیں نکال رہی ہیں۔
نیپال کی حکومت مرنے والوں کے لواحقین کو 1400 ڈالر فی کس ادا کر رہی ہے جس میں چارسو ڈالر تدفین کے اخراجات ہیں۔
دارالحکومت کٹھمنڈو میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے والوں کی مشکلات میں ایک اور اضافہ یہاں لاشوں سے اٹھنے والا تعفن بھی ہے جب کہ گھروں کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے ان لوگوں کا واپس جانا بھی فی الوقت ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ زلزلے کے باعث 80 لاکھ افراد متاثر ہوئے جب کہ 20 لاکھ کے لگ بھگ بے گھر ہوئے ہیں۔
جمعرات کو امدادی کارکنوں نے ایک منہدم عمارت کے ملبے سے دو لوگوں کو زندہ نکالا تھا جس کے بعد جمعہ کو بھی امدادی کارکنوں نے اپنی کوششوں کو مزید تیز کر دیا کہ ہوسکتا ہے کہ ملبے تلے کوئی اور بھی زندہ شخص پھنسا ہو۔
جمعرات کو ایک 15 سالہ لڑکے پیمبا تامانگ کو گیسٹ ہاؤس کی ایک منہدم عمارت سے نکالا گیا جس کے چند ہی گھنٹوں بعد ایک ہوٹل میں کام کرنے والی خاتون کرشنا دیوی کھاڈکا کو بھی ایسے ہی ملبے سے برآمد کیا گیا۔
امدادی کارکنوں کا کہنا تھا کہ لڑکی کو زیادہ زخم نہیں آئے اور اس کی حالت بہتر ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ملبے کے نیچے اندھیرے میں پھنسا رہا جہاں اس کے ہاتھ گھی کا ایک ڈبہ لگا اور وہ اتنے دن تک گھی کھا کر گزارہ کرتا رہا۔
اس لڑکے نے بتایا کہ زلزلے کے وقت وہ عمارت سے نکلنے کے لیے بھاگا لیکن اس پر کوئی آ کر گری اور وہ وہیں بیہوش ہو کر گر پڑا۔
کرشنا دیوی کے بارے میں امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ جب انھیں ملبے سے نکالا جا رہا تھا تو وہ اپنے حواس میں تھیں اور بات چیت کر رہی تھیں۔
دنیا کے مختلف ملکوں سے امدادی کارکن، طبی عملہ اور دیگر امدادی سامان لے کر سینکڑوں لوگ جنوب مشرقی ایشیا کے زلزلے سے متاثرہ ملک میں موجود ہیں۔