نیپال میں ہندو عقیدت مندوں کی جانب سے ہزاروں بھینسوں کو ایک دیوی کی بلی چڑھانے کا تہوار 'گادھی مل' شروع ہو گیا ہے۔ یہ تہوار دنیا میں سب سے زیادہ جانور ذبح کرنے کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔
اگرچہ نیپال کی حکومت تہوار کے دوران بڑے پیمانے پر جانوروں کے ذبح کو روکنے کے لیے کوشاں ہے اور جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں بھی اس کے خلاف ہیں۔ لیکن ہر چار سال بعد یہ تہوار پہلے سے زیادہ جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔
منگل کو سخت سیکیورٹی کے باوجود روایتی طریقے سے بکریوں، چوہوں، مرغیوں، سور اور کبوتروں کو ذبح کرنے سے اس تہوار کا آغاز ہوا۔ بعد ازاں ایک مذہبی پیش رو نے اپنے جسم کے پانچ مختلف اعضا سے نکلنے والا خون عقیدت مندوں کے سامنے پیش کیا۔
اس کے بعد تیز تلواریں اور چھریاں لیے 200 کے لگ بھگ قصاب ایک بڑے میدان میں جمع ہو گئے۔ یہ میدان بھینسوں سے بھرا ہوا تھا، جنہیں باری باری ذبح کیا جانے لگا۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق کئی ہزار بھینسیوں کی قربانی کے اس منظر کو دیکھنے والے زائرین کی تعداد بھی سیکڑوں میں تھی اور سب حیرت زدہ ہو کر یہ منظر دیکھ رہے تھے۔
پروگرام کی آرگنائزنگ کمیٹی کے ایک رکن بیریندر پرساد یادو نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ قربانیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ ان کے بقول ہم نے اس کی حمایت نہ کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ لیکن لوگ روایت پر یقین رکھتے ہیں اور روایات کو زندہ رکھنے کے لیے ہی یہاں جمع ہیں۔
نیپال اور اس کے ہمسایہ ملک بھارت سے آنے والے ہزاروں ہندو عقیدت مندوں نے سرحدی علاقے بریاپور پہنچ کر یہ منظر دیکھا۔ وہ کئی دن سے یہ تہوار دیکھنے کے لیے یہاں جمع تھے۔
ان میں سے ایک 30 سالہ شخص راجیش کمار داس نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ وہ دیوی پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "میری والدہ نے دیوی سے میرے بیٹے کی خیریت دریافت کی تھی۔"
اس سے قبل 2014 میں منائے گئے اس تہوار میں ایک ہندو دیوی کو بکروں سے لے کر چوہوں تک تقریبا 2 لاکھ جانوروں کی "بلی" چڑھائی گئی تھی۔ ہندو عقیدت مندوں کا خیال ہے کہ یہ بلی دیوی کی طاقت کے اظہار کے لیے دی جاتی ہے۔
جانوروں کے ذبح پر 2015 میں لگائی جانے والی پابندی کے بعد مقامی حکام کو امید تھی کہ یہ عمل رک جائے گا اور سالوں پرانی یہ رسم اپنے اختتام کو پہنچے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
نیپال کی سپریم کورٹ نے حکومت کو اس تہوار کی حوصلہ شکنی کے لیے ایک سال کا وقت دیا تھا لیکن پھر بھی اس پر پابندی نہیں لگ سکی۔
جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ نیپال کی سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ دیگر کمیٹیاں بھی جانوروں کی "بلی" روکنے کے قوانین نافذ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔