بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی ہدایت پر اعلیٰ افسران کی ایک ٹیم کشمیری پنڈتوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی تحقیقات کے لیے سرینگر پہنچ گئی ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق بھارتی حکومت اور بالخصوص وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے وادیٔ کشمیر میں اقلیتی برہمن ہندو فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹڈ کلنگ کے واقعات کی روک تھام نہ ہونے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق امت شاہ نے اتوار کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پُلوامہ میں اقلیتی ہندو برہمن کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک اور شہری کی ٹارگٹ کلنگ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی رپورٹ طلب کرلی ہے اور ان کی ہدایت پر اعلیٰ افسران کی ایک ٹیم بھی کشمیر کے سرمائی دارالحکومت جموں پہنچ گئی ہے۔
اس ٹیم کی قیادت وزارتِ داخلہ میں جموں و کشمیر اور لداخ امور کے جوائنٹ سیکریٹری پرشانت لوکھنڈے کررہے ہیں۔سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ اعلیٰ افسران کی یہ ٹیم جموں اور گرمائی صدر مقام سرینگر میں تین روزہ قیام کرے گی۔
اس دوران اعلی افسران کی یہ ٹیم جموں و کشمیر کی حفاظتی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ کشمیری پنڈت کہلانے والی اقلیتی برہمن ہندو کمیونٹی، پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کو درپیش مسائل پر مقامی حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران غورو خوض کرے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیم میں شامل افسران جموں و کشمیر میں وفاقی حکومت کے مالی تعاون سے بننے والے تعمیراتی منصوبوں کا بھی جائزہ لیں گے۔
کشمیری پنڈت کے قاتل کو ہلاک کرنے کا دعویٰ
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ پُلوامہ میں کشمیری پنڈت سنجے کمار کے قتل کی اتوار کو ہونے والی واردات میں ملوث عسکریت پسند کو اسی ضلعے کے ایک گاؤں پدگام پورہ میں منگل کو ہونے والی ایک جھڑپ کے دوران ہلاک کردیا گیا ہے۔
ایک اعلیٰ پولیس عہدے دار وجے کمار نے بتایا کہ کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی اس جھڑپ کے دوراں مبینہ قاتل عاقب مشتاق بٹ کا ایک ساتھی اعجاز احمد بھی ہلاک ہوا جب کہ ایک بھارتی فوجی ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔
وجے کمار کا کہنا تھا کہ پدگام پورہ میں ان عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع ملنے پر جموں و کشمیر پولیس، بھارتی فوج اور وفاقی پولیس فورسز سی آر پی ایف نے مشترکہ کارروائی میں گاؤں کو گھیرے میں لے لیا اور عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔
انہوں نے بتایا کہ عسکریت پسند ایک مسجد میں چھپے ہوئے تھے اس لیے مقدس حدود کے پیشِ نظر انتہائی احتیاط برتی گئی اور محدود فوجی قوت کا استعمال کیا گیا۔ ان کے بقول کسی بھی ضمنی نقصان سے بچنے کے لیے مسجد کے اندر موجود نمازیوں کو محفوظ جگہ پر منتقل کیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں ایک عسکریت پسند کی ہلاکت کے بعد اس کے ساتھی نے قریبی عمارت کے غسل خانے میں پناہ لی تھی۔ اس کے بعد سیکیورٹی فورسز کو ایک بار پھر احتیاط برتنا پڑی اور مزید کارروائی کرنے سے پہلے 14 شہریوں کو اس عمارت سے بحفاظت باہر نکالا گیا۔
ٹارگٹڈ کلنگ کے خلاف مظاہرے
کشمیری پنڈت سنجے کمارشرما دو دن پہلے پلوامہ کے اچھن علاقے میں اُن کے گھر کے نزدیک سے گولیاں مارکر ہلاک کیا گیا تھا۔ سنجے کمار ایک بینک میں سیکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کررہے تھے۔ اس واقعے کے خلاف بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کئی مقامات پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور شمع بردار جلوس بھی نکالے گئے۔
بھارتی وزارتِ داخلہ کے ذرائع نے بتایا کہ جموں و کشمیر میں اگرچہ سیکیورٹی کی صورتِ حال میں نمایاں بہتری آئی ہے لیکن اقلیتی برہمن ہندو فرقے سےتعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹڈ کلنگ تشویش ناک امر ہے ۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نےاعتراف کیا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیداہوتا ہے ۔ تاہم انہوں نے ایک بار پھر یقین دلایا کہ سیکیورٹی فورسز ان واقعات میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر رہیں گی اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
سنجے کمار کے قتل کی مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین نے مذمت کی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر کشمیری پنڈتوں کو نشانہ بنانے پر سوال اٹھایا جارہا ہے۔
ہلاک کئے گئےکشمیری پنڈت کے گھر جاکر اُن کی اہلیہ اور خاندان کےدوسرے افراد سے ملنے کے بعد سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ نفرت انگیز فلموں کو فروغ دینے کے بجائے اگر بھارتی حکومت حقیقی طور پر جموں و کشمیر میں اقلیتوں کی جانیں بچانے کی کوشش کرے تو یہ زیادہ مددگار ہوگا۔
انہوں ںے کہا کہ لیفٹننٹ گورنر انتظامیہ سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ ہدف بنائے گئے شخص کی بیوی کو فور ی طور پر سرکاری ملازمت دیں ۔ مسلمانوں سے اپیل کرتی ہوں کہ ان (اقلیتی فرقے) میں احساسِ تحفظ پیدا کرنے میں اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں۔
’مسئلہ کشمیر کے حل تک تشدد ختم ہونے کی امید نہیں‘
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد کُل جماعتی حریت کانفرنس نے سنجےکمار کی ہلاکت کو بہیمانہ قرار دیتےہوئے اس پر دُکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
حریت کانفرنس نے کہا کہ معصوم انسانوں کا قتل ایک المیہ ہے جس کا کشمیر گزشتہ تین دہائیوں سامنا کررہا ہے۔ مستقبل قریب میں بھی یہ المیہ ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔
تاہم حریت کانفرنس کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حکومت کی جانب سے انتہائی جبر اور یک طرفہ انتقامی کارروائیوں اور ردعمل کا نتیجہ ہے جس کا ہر سطح پر کشمیریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور بدقسمتی سے اس صورتِ حال میں کشمیر میں مقیم کشمیری پنڈت اس کا شکار ہو رہے ہیں ۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ جبراور گٹھن کے ماحول سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی کیوں کہ مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان رابطہ بھی تیزی سے ختم ہورہا ہے۔
حریت کانفرنس نے اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو اس کے عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق حل کرنے تک علاقے میں تشدد کے خاتمے کی امید نہیں کی جاسکتی ۔
لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں تشدد کو ایسے عناصر جاری رکھنا چاہتے ہیں جنہیں اس کا بالواسط یا بلاواسطہ فائدہ پہنچتا ہےاوران کے سیاسی مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ عسکریت پسندوں اور ان کے ہمدردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی مہم میں شدت لائی گئی ہے اور حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد کا یا تو کام تمام کردیا گیا ہے یا انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے۔