نور مقدم قتل کیس اپنے اختتامی مرحلہ میں داخل ہوگیا ہے۔ مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم کا کہنا ہے کہ وہ کیس کی اب تک کی کارروائی اور پولیس کی طرف سے کی جانے والی تفتیش سے مطمئن ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت دی جائے جب کہ دیگر ملزمان کو بھی سخت سزائیں دی جائیں۔
اس کیس میں گواہان کے بیانات مکمل ہوگئے ہیں جب کہ پولیس کے تفتیشی افسر پر جرح کا بڑا حصہ بھی مکمل ہوچکا ہے۔ آئندہ سماعت پر کیس کی سی سی ٹی وی فوٹیجزپر ملزمان کے وکیل پولیس سے کچھ سوالات کریں گے۔ اس کے بعد ملزمان کو ایک سوالنامہ دیا جائے گا جس میں ان کے بیان دوبارہ حاصل کیے جائیں گے اور اس کے بعد اس کیس کا فیصلہ سنایا جائے گا۔
بدھ کے روز ہونے والی سماعت اپنے مقررہ وقت دن 11 بجے سے کچھ تاخیر سے شروع ہوئی اور کیس کے آغاز میں وکیل اسد جمال نے عدالت سے استدعا کی کہ پولیس نے اس کیس کی گزشتہ سماعت پر ہونے والی جرح کے بارے میں ایک وضاحت جاری کی ہے، میں چاہتا ہوں کہ اسے ریکارڈ کا حصہ بنادیا جائے۔
اس پر پبلک پراسیکیوٹر حسن عباس نے کہا کہ میڈیا کی باتیں میڈیا تک رہنے دیں۔جس پر اسد جمال نے کہا کہ چاہے آئی جی ہے یا چیف سیکرٹری، کیس کے معاملے میں وہ آپ کے ماتحت ہیں۔
اس پر جج عطا ربانی نے مداخلت کی اور کہا کہ میں دیکھ لیتا ہوں کہ آئی جی نے اپنی وضاحت میں کیا کہا ہے۔
گزشتہ سماعت پر آلہ قتل پر ملزم کے فنگر پرنٹس اور پینٹ پر خون کے نشان نہ ہونے کے بارے میں جرح کے دوران دیے گئے جوابات پر اسلام آباد پولیس کی طرف سے میڈیا کو ایک وضاحتی بیان جاری کیا گیا تھا جس پر عدالت میں بات کی گئی۔
بدھ کے روز ہونے والی سماعت کے دوران زیادہ وقت تھیراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور کے وکیل اکرم قریشی نے لیا اور تفتیشی افسر انسپکٹر عبدالستار پر کیس کے مختلف پہلوؤں پر جرح کی۔
اکرم قریشی نے پولیس کی طرف سے جائے وقوعہ پر پہنچنے اور ظاہر جعفر کو پولیس سٹیشن منتقل کرنے کے حوالے سے پولیس کی طرف سے چالان اور ضمنی چالان میں شامل مختلف تضادات کے نکات اٹھائے۔
تھیراپی ورکس کے وکیل نے اس واقعہ کے دوران زخمی ہونے والے شخص امجد کے اسپتال میں داخل ہونے اور بیان لینے کے بارے میں بھی بات کی جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ ہمیں 21 جولائی کو اس شخص کے اسپتال میں آنے کا پتہ چلا جس کے بعد بیان لینے کی کوشش کی گئی لیکن ڈاکٹرز نے اس کی اجازت نہ دی، امجد کے والد نے امجد کے ہوش میں آنے تک کوئی بھی کارروائی کرنے سے انکار کیا۔
وکیل اکرم قریشی نے بتایا کہ اسپتال ریکارڈ کے مطابق امجد ٹریفک حادثہ میں زخمی ہوا تھا۔
اکرم قریشی کی جرح کے بعد کیس کے اہم ثبوت سی سی ٹی وی کیمروں کی ان کیمرہ ریکارڈنگ وکلا نے دیکھی اور اس پر تفتیشی افسر سے جرح کی گئی۔
کیس کے تفتیشی عبدالستار نے بتایا کہ اس کیس میں کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے۔
اس کیس میں ملزمان کے دو وکیل اسد جمال اور شہزاد قریشی 2 فروری کو پولیس افسر پر ڈی وی آر کے حوالے سے جرح کریں گے۔
کیس کی سماعت کے دوران تمام ملزمان کمرہ عدالت میں موجود تھے اور مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو بھی پیدل عدالت میں لایا گیا، اس سے قبل ایک مرتبہ ظاہر جعفر کو کرسی پر اور ایک بار سٹریچر پر کمرہ عدالت میں لایا گیا تھا۔
چہرے پر بڑھی ہوئی داڑھی، بکھرے بالوں کے ساتھ کمرہ عدالت میں موجود ظاہر جعفر کی دائیں آنکھ پر چوٹ لگی نظر آرہی تھی اور دائیں آنکھ سرخ تھی۔ ظاہر جعفر کمرہ عدالت میں ہتھکڑیوں کے ساتھ تمام وقت عدالت میں پچھلی جانب سیدھا کھڑا رہا ، اس کے لباس کی حالت بھی خاصی خراب نظر آرہی تھی ، جاگنگ ٹراوزر،ڈریس شرٹ اورمیلی سی جیکٹ کے ساتھ جوگرز میں ملبوس ظاہر جعفر کمرہ عدالت میں موجود تمام افراد کو گھورتا رہا اور کبھی چھت کی طرف منہ کرکے کھڑا رہا۔ اس دوران وہ لگاتار منہ میں کچھ بڑبڑاتا رہا لیکن اس کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
کمرہ عدالت میں ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم جی بھی موجود تھیں جو اپنے شوہر ذاکر جعفر سے بات چیت کرتی رہیں۔ لیکن اپنے بیٹے ظاہر جعفر سے انہوں نے کوئی بات نہ کی۔
کیس کی سماعت تقریباً چار گھنٹوں سے زائد وقت تک جاری رہی اور اس دوران صرف ایک مرتبہ 5 منٹ کا وقفہ کیا گیا۔ جس کی وجہ سے ظاہر جعفر ایک وقت پر جھک کر بیٹھنے کی کوشش کررہا تھا لیکن اس کے برابر میں کھڑے دو پولیس اہل کاروں نے اس کو بازو سے لگاتار پکڑے رکھا۔ سماعت ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے جب سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ دیکھنے کے لیے کارروائی ان کیمرہ کی گئی تو صحافیوں کی کمرہ عدالت میں واپسی پرملزم ظاہر جعفر کرسی پر آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔
جب سماعت ختم ہونے کا اعلان ہوا تو ظاہر جعفر کرسی پر ہی بیٹھا رہا اور اس دوران اس کے برابر میں کھڑے دو اہل کاروں نے اس کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور بخشی خانے کی طرف روانہ ہوگئے۔