اسلام آباد میں نور مقدم کیس کی سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی بدتمیزی اور نازیبا الفاظ پر جج نے انہیں کمرے سے باہر نکالنے کا حکم دیا۔
عدالتی حکم پر پولیس ملزم ظاہر جعفر کو زبردستی باہر لے گئی۔ باہر لے جانے کے دوران ملزم نے تفتیشی پولیس افسر کو گریبان سے پکڑ لیا تاہم پولیس ملزم کو اٹھا کر بخشی خانے لے گئی۔
اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت جاری ہے اور اب تک استغاثہ کے 12 گواہان کے بیانات قلم بند ہو چکے ہیں۔
بدھ کو بھی تین گواہان کے بیان ریکارڈ ہونے تھے اور موقعہ واردات کا نقشہ بنانے والے اہل کار عامر شہزاد کا بیان ریکارڈ کیا جا رہا تھا کہ ملزم ظاہر جعفر نے اونچی آواز میں بولنا شروع کر دیا۔
اس پر عدالت نے انہیں خاموش رہنے کا کہا، جب کہ ظاہر جعفر مسلسل عدالت میں بولتے رہے۔ ایک موقعہ پر کھڑکی میں لگے پردے کو دیکھتے ہوئے ظاہر جعفر نے بلند آواز میں کہا کہ پردے کے پیچھے کیا ہے۔
جج عطا ربانی نے خاموش رہنے کے لیے کہا البتہ وہ بعض نہ آئے۔ اس دوران کمرہٴ عدالت میں موجود عصمت آدم جی نے وکیل اسد جمال کے کان میں کچھ کہا اور اسد جمال نے ظاہر جعفر کے کان میں کوئی بات کی اور وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے لیکن بعد میں دوبارہ بولنا شروع کر دیا اور کہا کہ یہ میری عدالت ہے۔ میں نے کچھ کہنا ہے۔
ایک موقع پر ظاہر جعفر نے عدالت میں چیخ کر کہا کہ میں اپنی زندگی دے چکا ہوں یہ سب کچھ کرنے کا کیا مقصد ہے۔ میں اور میرا خاندان انتظار کر رہے ہیں۔
اس پر جج عطا ربانی نے، جو ساری صورتِ حال برداشت کر رہے تھے، ملزم کے وکیل اکرم قریشی سے سوال کیا کہ کیا موجودہ کارروائی میں ظاہر جعفر کی عدالت میں موجودگی ضروری ہے، جس پر ان کے انکار کے بعد جج نے کورٹ کے معاون کو حکم دیا کہ ملزم کو باہر لے جایا جائے۔
اس پر ملزم کمرہٴ عدالت کے دروازے کے پیچھے جا کر کھڑے ہو گئے اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد دوبارہ انگریزی میں عدالت کے بارے میں نازیبا الفاظ بولنے لگا جس پر جج عطا ربانی نے کہا کہ یہ اس وقت بہت ڈرامے کر رہا ہے۔
جج کے اشارے پر تفتیشی افسر انسپکٹر مصطفیٰ کیانی نے ظاہر کا ہاتھ پکڑ کر باہر جانے کی کوشش کی تو ملزم نے انسپکٹر مصطفیٰ کا گریبان پکڑ لیا اور اونچی آواز میں انگریزی زبان میں مغلظات سنانے لگا۔
اس پر عدالت کے اندر اور باہر موجود پولیس اہل کار فوری حرکت میں آئے اور زبردستی ظاہر جعفر کو کمرہٴ عدالت سے باہر لے گئے۔ عدالت سے باہر آنے کے بعد بھی ظاہر جعفر نے مزاحمت کی اور چلنے سے انکار کیا جس پر چار پولیس اہل کاروں نےاسے بازو اور ٹانگوں سے اٹھایا اور بخشی خانے کی طرف چل پڑے۔
بخشی خانہ کمرہٴ عدالت سے 100 میٹر کے فاصلے پر تھا جہاں ملزم کو چار پولیس اہل کار اٹھا کر لے کر گئے اور اس دوران سینکڑوں افراد اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے یہ سارا منظر دیکھا۔
ملزم کو پولیس اہل کاروں نے بخشی خانے میں پہنچایا اور اس دوران کیس کی سماعت چلتی رہی۔
کمرہٴ عدالت میں سرکاری گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم کیس کا فیصلہ آٹھ ہفتوں میں کرنے کا حکم دیا تھا اور اب تک 12 سرکاری گواہان کے بیانات ریکارڈ ہو چکے ہیں۔
مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ یہ کیس جلد مکمل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ملزم کیس کا رخ تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسی حرکتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سرکاری گواہان کے بعد دیگر استغاثہ کے گواہ مکمل ہوں گے اور اس کے بعد دفاع کے گواہان کی باری آئے گی جس کے بعد جرح کا عمل شروع ہو گا۔
شاہ خاور نے امید ظاہر کی کہ یہ کیس مقررہ مدت میں مکمل کر لیا جائے گا۔
سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کو 20 جولائی کو اسلام آباد میں ظاہر جعفر نے تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد تیز دھار آلے سے قتل کیا تھا۔ بعد ازاں ملزم کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ملزمان کے خلاف گزشتہ ماہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی اور باقاعدہ کیس کی سماعت شروع ہوئی تھی۔
اس کیس میں ملزم کی والدہ اور والد کو اعانت جرم پر گرفتار کیا گیا تھا، البتہ ملزم کی والدہ عصمت آدم جی کو سپریم کورٹ کی طرف سے ضمانت دے دی گئی ہے جب کہ والد ذاکر جعفر بدستور اڈیالہ جیل میں ہیں۔