رسائی کے لنکس

یورپ میں اسلام اور تارکین وطن کے خلاف ابھرتےجذبات


یورپ میں اسلام اور تارکین وطن کے خلاف ابھرتےجذبات
یورپ میں اسلام اور تارکین وطن کے خلاف ابھرتےجذبات

یورپ میں سخت گیر نظریات رکھنے والے دائیں بازو کی بڑہتی ہوئی حمایت کے بارے میں ماہرین کا کہناہے کہ اس سے وہاں آباد تارکین وطن کے لیے نئی مشکلات پیدا ہو سکتی ہے۔حال ہی میں ناروے میں دہشت گردحملوں کے الزام میں گرفتار ہونے والےنارویجن باشندے نے اب تک سامنے آنے والی معلومات کے مطابق مبینہ طور پر یورپ میں تارکین وطن کی آمد ، اسلام اور ثقافتی تنوع کے خلاف احتجاج کے لئے تشدد کا راستہ اختیار کیا تھا ۔

ناروے جیسے پر امن ملک کی تاریخ میں ایسی دہشت گردی کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں ۔دو مختلف مقامات پر ایک ہی دن میں درجنوں انسانی جانیں لینے والے اینڈرس ببریوک کے انٹرنیٹ پر جاری کردہ اس کے پ15 سو صفحات پر مبنی منشور میں کارل مارکس کے نظریات ، کثیر الثقافتی رجحانات اور عالمگیریت کے خلاف باتیں ہے ۔اس کے دعوی کے مطابق مسلمانوں نے یورپ میں اپنی آبادی میں اضافے کے ذریعے جنگ شروع کر رکھی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ یورپ کے تحفظ کے لئے ایک صلیبی جنگ کی ضرورت ہے ۔

لندن کی کنگسٹن یونیورسٹی میں یورپ کے دائیں بازو کی انتہا پسند سوچ پر تحقیق کرنے والے آنڈریا میمون کہتے ہیں کہ یورپ میں ایسی سوچ رکھنے والا وہ واحد شخص نہیں ہے اور یورپی ملکوں کے دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے بہت سے حلقوں میں موجود ہیں۔ وہ یورپ کو تارکین وطن سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں ۔

یورپی ملکوں کا یہ منظرنامہ سیاسی رخ اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ ناروے میں دائیں بازو کی پراگریس پارٹی نارو ے کی پارلیمنٹ میں دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے ۔

سویڈن میں ڈیمو کریٹک پارٹی گزشتہ سال ،سویڈن صرف سویڈش باشندوں کے لئے ،کے نعرے کے ساتھ پارلیمنٹ میں شامل ہوئی تھی ۔

جبکہ فن لینڈ میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت ٹرو فنز کے پاس پانچ میں سے ایک ووٹ ہے۔ ایسا صرف سکینڈے نیویا ملکوں میں نہیں ہے ۔

نیو انٹرنیشنلسٹ نام کے ایک جریدےکے ایڈیٹر کے بسواس کہتے ہیں کہ پچھلی ایک دہائی میں یورپ میں حالات بہت بدل گئے ہیں ۔

ناروے ابھی سوگوار ہے ، اور پورے یورپ میں دائیں بازو کے عناصر ناروے میں دہشت گردی کے ذمہ دار آندریس بریوک کے خلاف برہمی کا اظہار کر رہے ہیں ۔کے بسواس کہتے ہیں کہ وہ شاید اس کی سوچ کے حامی ہوں مگر اس کے طریقہ کار کے حامی نہیں اور ان دونوں کو الگ سمجھنا ضروری ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ انتہاپسند ی پر مبنی سیاست ایک خطرناک آغاز ہو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس کا راستہ پر تشدد انتہا پسندی پر ختم ہو ۔

XS
SM
MD
LG