امریکی صدر براک اوباما نے افغانستان میں امریکی فوج کے وسیع تر کردار کی منظوری دی ہے، تاکہ طالبان سے نبردآزما ہونے میں مقامی افواج کی مدد کی جا سکے۔
یہ نیا منصوبہ، جس سے قبل اِس پر مہینوں تک مباحثہ جاری رہا، ضرورت پڑنے پر طالبان کے خلاف فضائی کارروائی میں اضافے کی اجازت دیتا ہے، اور عام طور پر، امریکی افواج کے لیے زیادہ لچک پیدا کرتا ہے کہ وہ کس طرح افغان افواج کے ساتھ کام کر سکتی ہیں۔
انتظامیہ کے ایک اہل کار کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ امریکی افواج کے لیے بہتر مواقع فراہم کرے گا کہ بَری اور فضائی دونوں طرح سے ساتھ دینے اور روایتی افغان افواج کی استعداد بڑھانے میں مدد دی جا سکے۔
اہل کار نے کہا ہے کہ امریکی افواج افغان بَری فوج کو قریبی فضائی اعانت فراہم کرنے اور ساتھ دینے اور لڑائی میں مشاورت فراہم کریں گی۔
منصوبے میں امریکی بَری افواج کو ملوث نہیں کیا جائے گا۔
فیصلے کی رو سے، افغانستان میں امریکی فوجی کردار کی ایک بار پھر وضاحت کی گئی ہے، جس سے ایک برس قبل بین الاقوامی لڑاکا فوجوں نے اپنا مشن مکمل کر لیا تھا، جس کے بعد طالبان سے نبردآزما ہونے کا کام افغان فوجوں کے حوالے ہو گیا تھا۔
اس سے چھ ماہ بعد افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد 9800 سے کم ہو کر 5500 رہ جائی گی، جس کے لیے اوباما نے کہا تھا کہ 2017ء میں اس پر عمل درآمد ہوگا۔
حالیہ ماہ کے دوران، افغانستان میں پھر سے سر اٹھانے والے طالبان سے لڑائی میں شدت آگئی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2015ء میں 3545 افغان شہری ہلاک جب کہ 7457 زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر طالبان کے ہاتھوں ہلاک و زخمی ہوئے۔