امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ دولت الاسلامیہ کے شدت پسندوں کی طرف سے درپیش خطرے سے نمٹنے کے لیے اِسی ہفتے ’اپنے لائحہ عمل‘ کا اعلان کریں گے۔
مسٹر اوباما نے یہ بات ’این بی سی‘ ٹیلی وژن کے ’میٹ دِی پریس‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی، جسے اتوار کے روز نشر کیا گیا۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس معاملے کو زیر غور لانے کے لیے، وہ منگل کو کانگریس کے رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ پھر وہ بدھ کو 11 ستمبر کے حملوں کی 13 ویں برسی کے موقع کی مناسب سے خطاب کریں گے۔
مسٹر اوباما نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی بری فوج کو ملوث کرنے کے بارے میں کوئی اعلان نہیں ہوگا۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکہ بین الاقوامی اتحاد کا حصہ بننے اور عراقی اور کُرد فوج کی مدد کے لیے فضائی کارروائیاں کرنے کا حصہ ہوگا۔
اُنھوں نے کہا کہ کئی مہینوں تک جاری رہنے والی کارروائی میں دولت الاسلامیہ کی پیش قدمی کو روکا جائے گا اور اُس کے زیر قبضہ علاقے کو توڑا جائے گا۔ اُنھوں نے کہا کہ گروپ کو شکست دی جائے گی۔
کچھ قانون سازوں نے صدر پر زور دیا ہے کہ اس شدت پسند گروپ کے خلاف کی جانے والی فضائی کارروائی کو وسیع تر کیا جائے، جس میں شام کے اہداف بھی شامل ہوں۔
گذشتہ دو ہفتوں کے دوران، دولت الاسلامیہ نے امریکی صحافیوں جمیز فولی اور اسٹیون سوٹلوف کے سر قلم کرنے کی وحشیانہ حرکات کی وڈیو جاری کیں، یہ کہتے ہوئے کہ یہ عراق میں تنظیم کے ٹھکانوں پر کی جانے والی امریکی کارروائیوں کا بدلہ ہیں۔
گروپ یرغمال بنائے گئے ایک برطانوی شخص کو قتل کرنے کی دھمکیاں بھی دے چکا ہے۔
’میٹ دِی پریس‘ انٹرویو میں، مسٹر اوباما نے کئی دیگر عنوانات پر بھی گفتگو کی، جِن میں تارکین وطن کا معاملہ بھی شامل ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ اِمیگریشن کے معاملے کو کسی سیاسی وجوہ کی بنا پر یا ڈیموکریٹس کی طرف سے امریکی سینیٹر پر کنٹرول قائم رکھنے کے امکانات بڑھانے کی خاطر انتظامی اقدام کو نومبر کے انتخابات تک مؤخر نہیں کر رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ امیگریشن پر کیا جانے والا کوئی اقدام کا طریقہٴ کار درست ہو اور یہ دیرپہ اقدام ثابت ہو۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ ایک دہائی قبل کے مقابلے میں جنوبی سرحد پار کرنے کی کوشش کرنے والے بہت ہی کم افراد پکڑے جا رہے ہیں اور متعدد امریکی اس بات کے قائل ہیں کہ یہ ایک بحرانی صورتِ حال ہے، کیونکہ اُن کو تمام حقائق کا علم نہیں ہو پا رہا۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ والدین کے ہمراہ نہ آنے والے بچوں کے معاملے پر امریکہ نے باضابطہ طور پر مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں کی ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ جنوبی سرحد پر ماں باپ کے بغیر امریکہ پہنچنے والے کمسن بچوں کی تعداد ایک سال قبل کے مقابلے میں بہت ہی کم ہوگئی ہے۔