رسائی کے لنکس

امریکہ: ہیگل نئے وزیرِ دفاع، برینن 'سی آئی اے' چیف نامزد


پیر کو 'وہائٹ ہائوس' میں منعقدہ ایک تقریب میں صدر اوباما نے ان عہدوں پر نامزدگیوں کا اعلان کیا۔ اس موقع پر چک ہیگل اور جان برینن بھی صدر کے ہمراہ موجود تھے۔

امریکہ کے صدر براک اوباما نے اپنی دوسری مدتِ صدارت کے لیے سابق ری پبلکن سینیٹر چک ہیگل کو امریکہ کا وزیرِ دفاع اور انسدادِ دہشت گردی کے امور پر اپنے مشیر جان برینن کو خفیہ ایجنسی 'سی آئی اے' کا نیا سربراہ نامزد کیا ہے۔

پیر کو 'وہائٹ ہائوس' میں منعقدہ ایک تقریب میں صدر اوباما نے ان عہدوں پر نامزدگیوں کا اعلان کیا۔ اس موقع پر چک ہیگل اور جان برینن بھی صدر کے ہمراہ موجود تھے۔

مسٹر ہیگل کی نامزدگی کا اعلان کرتے ہوئے صدر اوباما نے انہیں ایک ایسا رہنما قرار دیا جس کی، ان کے بقول، امریکی افواج کو ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیبراسکا سے منتخب ہونے والے سابق سینیٹر اس "دو جماعتی روایت کی نمائندگی کرتے ہیں جس کی اس وقت واشنگٹن میں اشد ضرورت ہے"۔

صدر کا کہنا تھا کہ چک ہیگل نے اپنے ضمیر کی آواز کا ایسی صورت میں بھی اظہار کرکے عزت اور ناموری حاصل کی ہے جب اس کے لیے حالات سازگار نہ تھے۔

جان برینن کی 'سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے)' کے نئے ڈائریکٹر کے طور پر نامزدگی کا اعلان کرتے ہوئے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ انہوں نے 'القاعدہ' کے خلاف جاری لڑائی میں قائدانہ کردار اداکیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جان برینن امریکی اقدار پر قائم رہتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم پر قائم رہے ہیں۔

صدر اوباما کی جانب سے چک ہیگل اور جان برینن کی وزیرِ دفاع اور 'سی آئی اے' چیف کے عہدوں پر نامزدگی کے بعد اب ان دونوں صاحبان کو امریکی سینیٹ کی توثیق درکار ہوگی جس کے بعض ارکان پہلے ہی ان نامزدگیوں پر اعتراض کر رہے ہیں۔
چک ہیگل
چک ہیگل

چک ہیگل پر امریکی سینیٹروں کے اعتراضات

ری پبلکن کے مرکزی رہنما یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ و ہ سینیٹ میں مسٹر ہیگل کے تقرر کی منظوری میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کریں گے اور ان سے ایران اور اسرائیل کے متعلق ان کے ماضی کے موقف پر سخت سوالات کیے جائیں گے۔

یاد رہے کہ 66 سالہ چک ہیگل ماضی میں ایران کے خلاف یک طرفہ پابندیاں عائد کیے جانے کی مخالفت کرتے آئے ہیں جب کہ بعض سینیٹر اسرائیل کے لیے ان کی حمایت کو بھی شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

ری پبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے گزشتہ روز 'سی این این' کو دیے جانے والے اپنے ایک انٹرویو میں چک ہیگل کی متوقع نامزدگی کو ایک "متنازع انتخاب" قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ "ان کا تقرر [ری پبلکن کو] بھڑکانے" کے مترادف ہوگا۔

مسٹر ہیگل امریکی فوج کے تحت جنگِ ویتنام میں بھی حصہ لے چکے ہیں جہاں وہ ایک محاذ پر زخمی بھی ہوئے تھے۔ لیکن انہوں نے عراق پر امریکی حملے کی سخت مخالفت کی تھی جب کہ وہ ماضی میں افغانستان میں جاری امریکی جنگ کو بھی تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔

سنہ 2009 میں سینیٹ سے سبکدوش ہونے والےچک ہیگل نے 2011ء میں 'دی فنانشل ٹائمز' کو دیے جانے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 'پینٹاگون' "پھیل رہا ہے" جسے اس کی حدود میں لانے کی ضرورت ہے۔

اگر سینیٹ نے ان کے تقرر کی منظوری دیدی تو مسٹر ہیگل صدر براک اوباما کے تحت کام کرنے والے امریکہ کے تیسرے وزیرِ دفاع ہوں گے۔

اس سے پہلے صدر اوباما کے عہدِ صدارت میں اس عہدے پر رابرٹ گیٹس فائز تھے جن کے بعد یہ عہدہ لیون پنیٹا نے سنبھالا تھا جو تاحال اس ذمہ داری کو انجام دے رہے ہیں۔

جان برینن
جان برینن
جان برینن کے متعلق تحفظات

امریکی سینیٹ کے بعض اراکین نے صدر اوباما کے مشیر برائے انسدادِ دہشت گردی کے طور پر جان برینن کے دیگر ملکوں پر ڈرون حملوں اور مشتبہ دہشت گردوں کی 'ٹارگٹ کلنگ' کی پالیسی میں کردارپر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔

صدر براک اوباما نے2009ء میں پہلی بار عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد بھی 'سی آئی اے' کی سربراہی جان برینن کو سونپنے پر غور کیا تھا لیکن ناقدین کی جانب سے ان کے ماضی پر اعتراضات کے باعث برینن نے خود ہی یہ ذمہ داری قبول کرنے سے معذرت کرلی تھی۔

برینن پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں 'سی آئی اے' کی جانب سے مشتبہ ملزمان سے تفتیش کے اپنائے گئے ان طریقوں کا حصہ رہے تھے جنہیں متنازع اور انسانی حقوق کے برخلاف تصور کیا جاتا ہے۔

وہ ماضی میں ایک طویل عرصہ تک 'سی آئی اے' سے منسلک رہ چکے ہیں جب کہ وہ مسلم دنیا کے اہم ملک سعودی عرب میں بھی امریکی خفیہ ایجنسی کے اسٹیشن چیف کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔

سینیٹ کی منظوری کی صورت میں وہ 'سی آئی اے'کے سابق سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس کی جگہ سنبھالیں گے جنہوں نے دورانِ ملازمت ایک غیر ازدواجی تعلق کا انکشاف ہونے پر نومبر میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
XS
SM
MD
LG