یہ تیسرا موقع ہو گا کہ مسٹر اوباما امریکی کانگریس میں اسٹیٹ آف دی یونین ایڈریس پیش کریں گے ۔ ہر سال کی تقریر میں، اقتصادی بحران جو انہیں اپنے ریپبلیکن پیشرو جارج ڈبلو بُش سے ورثے میں ملا تھا، سب سے بڑا موضوع رہا ہے ۔ انھوں نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور اقتصادی ترقی کے لیے انھوں نے کیا کوششیں کی ہیں۔
صدارتی انتخاب کا سال سیاسی اعتبار سے بہت اہم ہوتا ہے ۔ نومبر میں امریکی یہ طے کریں گے کہ کیا مسٹر اوباما کو صدارت کے عہدے کے لیے مزید چار سال دیں یا ان کے بجائے ان کے مقابل ریپبلیکن امیدواروں میں سے کسی کو منتخب کرلیں جو کہتے ہیں کہ مسٹر اوباما کے لیے وائٹ ہاؤس میں چار سال کا عرصہ کافی ہے ۔
ملک میں بے روزگار ی کی شرح اب 8.5 فیصد ہے۔ بے روزگار ی کم تو ہوئی ہے لیکن اتنی تیزی سے نہیں جتنی مسٹر اوباما کو امید تھی۔ اگرچہ انھوں نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہوئے واشنگٹن کی سیاست سے دائمی مخالفت کا ماحول ختم کرنے زور دیا تھا، لیکن انہیں مسلسل ریپبلیکنز کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے جو ان کی اقتصادی تجاویز کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے رہیں۔
منگل کی رات مسٹر اوباما جو کچھ کہیں گے اس کی ایک جھلک انھوں نے ایک وڈیو میں فراہم کی جسے انھوں نے ایسی معیشت کے خاکے کا نام دیا ہے جو پائیدار ہو گی اور جس میں اشیاء کی تیاری کی صنعتوں، آلودگی سے پاک توانائی، اور تعلیم پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
اس کی بنیاد وہ اہم تصورات ہوں گے جو انھوں نے گذشتہ سال ایک تقریر میں پیش کیے تھے، جس میں درمیانے طبقے کی اہمیت اور معیشت میں سب کے ساتھ انصاف پر زور دیا گیا تھا ۔ انھوں نے کہا تھا’’درمیانے طبقے کے لیے اور ان لوگوں کے لیے جو درمیانے طبقے میں اپنے لیے جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ ایک فیصلہ کُن دوراہا ہے ۔ ہم دو راستوں میں سے کسی ایک راستے پر جا سکتے ہیں ۔ ایک راستہ ترقی کے کم مواقع اور کم انصاف کا راستہ ہے۔ یا ہم اس منزل کے لیے لڑ سکتے ہیں جہاں میرے خیال میں ہمیں جانا چاہیئے ، یعنی ایسی معیشت کی تعمیر جس سے سب کو فائدہ پہنچے، صرف چند مالدار لوگوں کو نہیں۔‘‘
امکان یہی ہے کہ مسٹر اوباما ایک بار پھر ریپبلیکنز کی طرف مصالحت کا ہاتھ بڑھائیں گے لیکن وہ بتائیں گے کہ مستقبل کے لیے ان کے اور ریپبلیکنز کے تصور میں کیا فرق ہے ۔ آنے والے مہینوں میں وفاقی اخراجات اور ٹیکسوں میں کمی کے سوال پر ریپبلیکن قانون سازوں کے ساتھ ان کے کئی اور معرکے ہوں گے ۔
ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر، ریپبلیکن جان بوئہنر نے Fox News Sunday ٹیلیویژن پروگرام میں جو کچھ کہا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی کشیدگی جاری رہے گی۔’’صدر کی پالیسیاں ہماری معیشت کو بحال کرنے میں ناکام رہی ہیں، بلکہ حقیقیت یہ ہے صدر کی پالیسیوں کی وجہ سے ہماری معیشت کی حالت اور زیادہ خراب ہو گئی ہے ۔‘‘
کانگریس پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے ۔ واشنگٹن پوسٹ /اے بی سی نیوز کے رائے عامہ کے جائزے کے مطابق، چوراسی فیصد امریکی ،قانون سازوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔
مسٹر اوباما کی سیاسی حکمت عملی یہی رہے گی کہ وہ کانگریس کی کارکردگی پر تنقید کرتے رہیں۔ لیکن پریس سیکرٹری جے کارنی کہتے ہیں کہ صدر کانگریس کے ریپبلیکن ارکان کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔’’ہم اس اندازِ فکر سے متفق نہیں کہ چونکہ یہ انتخاب کا سال ہے اس لیے ہم کوئی کام نہیں کر سکتے ۔ میرے خیال میں اگر یہ بات صحیح ہوئی تو امریکی عوام اسے پسند نہیں کریں گے۔ ‘‘
مسٹر اوباما کی تقریر غور سے سننے والوں میں ایوانِ نمائندگان کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ بھی شامل ہوں گے ۔ ساؤتھ کیرولائنا میں ریپبلیکن پرائمری انتخاب میں فتح حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اپنی تقریر میں کہا’’ہماری زندگی میں یہ سب سے اہم انتخاب ہے ۔ اگر اس تباہ کن کارکردگی کے بعد براک اوباما دوبارہ منتخب ہو جاتے ہیں، تو ذرا سوچیئے کہ صدارت کی دوسری مدت میں وہ کتنے انتہا پسند ہوچکے ہوں گے ۔‘‘
توقع ہے کہ مسٹر اوباما اپنی تقریر میں اپنے اہم کارناموں کا ذکر کریں گے جن میں علاج معالجے کے نظام میں اصلاحات، وال اسٹریٹ کے بارے میں ضابطوں کو سخت بنانا، القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کی ہلاکت، عراق کی جنگ کا خاتمہ، اور افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کے پروگرام کو برقرار رکھنا شامل ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار اور میڈیا کے دانشور بغور دیکھیں گے کہ اس سال کی تقریر کا مسٹر اوباما کی مقبولیت کی شرح پر کیا اثر پڑتا ہے۔ گیلپ تنظیم کے مطابق، اس سال مسٹر اوباما کی مقبولیت کا اوسط 44 فیصد رہا ہے ۔