پاکستان کی وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کے بعد ایسے چہرے بھی کابینہ میں شامل ہوئے ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ زرداری اور مشرف حکومت کا حصہ رہ چکے ہیں۔
یہ بھی چہ میگوئیاں جاری ہیں کہ حکومت تو تحریک انصاف کی ہے لیکن وفاقی کابینہ میں تحریک انصاف کے ساتھ شروع سے وابستہ رہنے والوں کی تعداد کم ہوتی جار ہی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت پر یہ تنقید بھی کی جارہی ہے کہ اس کی 47 رکنی کابینہ میں غیر منتخب افراد کی تعداد بڑھ کر 16 ہو گئی ہے۔
حالیہ سب سے بڑی تبدیلی وزیرخزانہ کی ہے۔ اسد عمر کی جگہ وزیرخزانہ بنائے جانے والے عبدالحفیظ شیخ مشرف دور میں سندھ کابینہ کا حصہ تھے۔ جب کہ 2010 میں انہیں یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں مشیر خزانہ مقرر کیا گیا تھا۔
عبدالحفیظ شیخ 2012 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر بھی منتخب ہوئے تاہم حکومت کی تبدیلی کے بعد وہ امریکہ میں ملازمت کرتے رہے ہیں۔
وزیر داخلہ مقرر کیے جانے والے بریگیڈیئر(ر) اعجاز شاہ کو پرویز مشرف کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے اعجاز شاہ، پرویز مشرف اور چوہدری پرویز الہی پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ اگر انہیں قتل کیا گیا تو یہ شخصیات اس میں ملوث ہوں گی۔
بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے مشرف دور حکومت میں انٹیلی جینس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر 2004 سے 2008 تک کام کیا۔ اس دوران ان پر سیاسی انجنیئرنگ کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔
اطلاعات یہ بھی تھیں کہ پرویز مشرف انہیں آسٹریلیا میں پاکستان کا سفیر لگانا چاہتے تھے لیکن آسٹریلوی حکومت کی طرف سے مسترد کیے جانے پر انہیں ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جینس بیورو لگا دیا گیا۔
اعجاز شاہ جولائی 2018 کے انتخابات میں ننکانہ صاحب سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتے تھے۔
مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں شامل رہنے والی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بھی اطلاعات کا مشیر مقرر کیا گیا ہے۔
فردوس عاشق اعوان نے 2002 کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ سے الیکشن لڑا، تاہم اس وقت کے اسپیکر چوہدری امیر حسین سے ان کے اختلافات زبان زدعام رہے۔
فردوس عاشق اعوان 2008 میں پیپلزپارٹی میں شامل ہوئیں اور پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وزیر اطلاعات و نشریات رہیں۔ 2013 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر انہیں سیالکوٹ سے شکست ہوئی جس کے بعد وہ عارضی طور پر سیاست سے کنارہ کش ہو گئیں تھیں۔
2017 میں فردوس عاشق اعوان نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن 2018 کے انتخابات میں انہیں شکست ہوئی تاہم اب انہیں وزیر اعظم کی مشیر برائے اطلاعات مقرر کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی مقرر کئے جانے والے فواد چوہدری بھی سابق صدر پرویز مشرف کے ترجمان رہ چکے ہیں جب کہ وہ پیپلزپارٹی کا حصہ رہنے کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اور وفاقی وزیر دفاعی پیداوار زبیدہ جلال بھی پرویز مشرف کابینہ میں شامل رہے ہیں۔
سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیر انسداد منشیات، علی محمد خان مہر مشرف دور میں وزیرِ اعلیٰ سندھ رہ چکے ہیں۔
علی محمد مہر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑتے رہے ہیں تاہم وہ مختلف ادوار میں پیپلزپارٹی کے اتحادی رہے ہیں لیکن اب وہ بھی پی ٹی آئی کی وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔
مخدوم خسرو بختیار، عمرایوب خان، طارق بشیر چیمہ، غلام سرور خان، ملک امین اسلم، عبدالرزاق داؤد، ندیم افضل چن سمیت تحریک انصاف میں شامل بہت سے افراد کا تعلق ماضی میں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور سابق صدر پرویز مشرف سے رہا ہے۔
کابینہ میں ردوبدل کے بعد غیر منتخب افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ان ٹیکنوکریٹس میں عبدالحفیظ شیخ، ڈاکٹر ظفر اللہ اور ندیم بابر شامل ہیں۔ ان غیر منتخب ارکان نے ایم این اے اسد عمر، عامر کیانی اور غلام سرور خان کی جگہ لی ہے۔ فردوس عاشق اعوان بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
وفاقی کابینہ میں وزراء کی تعداد 24 ہے، جس میں 5 وزیر مملکت، 13 معاونین خصوصی اور 5 مشیر بھی کابینہ کا حصہ ہیں۔
معاونین خصوصی میں سے صرف علی نواز اعوان رکن قومی اسمبلی ہیں، جب کہ یار محمد رند رکن بلوچستان اسمبلی ہیں۔
دیگر غیر منتخب معاونین خصوصی میں شہزاد اکبر، افتخار درانی، نعیم الحق، زلفی بخاری، شہزاد قاسم، عثمان ڈار، یوسف بیگ مرزا اور ندیم افضل چن شامل ہیں۔
عبدالحفیظ شیخ کی شمولیت کے بعد وزیراعظم کے مشیروں کی مجموعی تعداد 5 ہو گئی ہے جو کوئی الیکشن جیت کر نہیں آئے۔ دیگر غیر منتخب مشیروں میں ملک امین اسلم، عبدالرزاق داؤد، شہزاد ارباب اور ڈاکٹر عشرت حسین شامل ہیں۔
سیاسی حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر پرویز مشرف کی کابینہ اور غیر منتخب افراد کو ہی رکھنا تھا تو پھر تبدیلی کا نعرہ کیوں لگایا گیا؟