ابوظہبی نے کہا ہے کہ آثار قدیمہ کے ماہرین نے دنیا کا سب سے قدیم موتی دریافت کیا ہے جو لگ بھگ 8000 سال پرانا ہے۔ حکام نے اتوار کے روز کہا کہ اس دریافت سے یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ انسانی تاریخ کے پتھر کے دور میں بھی چیزوں کی تجارت ہوتی تھی۔
یہ قدرتی موتی جزیرہ مروح میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران ایک کمرے کے فرش سے ملا۔
جزیرہ مروح متحدہ عرب عمارات کے دارالحکومت سے کچھ فاصلے پر واقع ہے، جہاں قدیم انسانی تاریخ کی باقیات موجود ہیں۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان باقیات کا تعلق پتھر کے زمانے کے آخری دور سے ہے۔
ابو ظہبی کے محکمہ ثقافت و سیاحت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ زمین کی جن پرتوں میں سے موتی دریافت ہوا ہے، کاربن تجزے کے مطابق ان کا زمانہ 5800 سے 5600 قبل از مسیح کا ہے۔
محکمے کے چیئرمین محمد المبارک نے کہا ہے کہ اس قدیم موتی کی دریافت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری آج کی معیشت اور ثقافت کی جڑیں انسانی تاریخ کے اس دور سے جڑی ہیں جب ابھی اس کا جنم ہو رہا تھا۔
مروح جزیرے میں، جہاں سے دنیا کا قدیم ترین موتی دریافت ہوا ہے، پتھر کے زمانے کی آبادی کے آثار بکھرے ہوئے ہیں۔ وہاں آثار قدیمہ کے ماہرین کی نگرانی میں کھدائی کا کام ہو رہا ہے۔ پتھر کے بنے ہوئے مکانوں کی باقیات میں سے منکے اور ایسی نوکیلی چیزیں ملی ہیں جنہیں تیروں کے سرے پر لگایا جاتا ہو گا۔
جزیرے مروح سے دریافت ہونے والے موتی کو پہلی بار ابو ظہبی کے مشہور پیرس میوزیم میں 30 اکتوبر سے نمائش کے لیے رکھا جا رہا ہے۔ اس نمائش کو 'آسائش و آسودگی کے دس ہزار سال' کا نام دیا گیا ہے۔
اماراتی ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ قدیم دور میں اس علاقے کے تجارتی تعلقات قدیم عراق سے تھے اور موتیوں کے بدلے میں چینی کی ٹائلوں اور دوسری چیزوں کی تجارت کی جاتی تھی۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اس دور میں زیوارت کا بھی رواج ہو گیا تھا۔
ابوظہبی کا علاقہ ایک زمانے میں موتیوں کی تجارت کے لیے شہرت رکھتا تھا لیکن 1930 کے عشرے میں جب جاپان نے نقلی موتی بنانے شروع کیے تو انکی تجارت کو شدید دھچکہ لگا۔ اور پھر خلیجی علاقے میں تیل کی دریافت کے بعد یہاں کی معیشت کے انداز تبدیل ہو گئے۔