پاکستان میں درجنوں لاپتہ بلوچ افراد کے لواحقین ہفتوں سے کھلے آسمان تلے اسلام آباد کے ایک کیمپ میں شدید سردی میں احتجاج کر رہے ہیں۔وہ اپنے لاپتہ عزیز و أقارب کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے ہیں جنہیں مبینہ طور پر سیکورٹی ایجنسیز نے اغوا کیا تھا۔تاہم پاکستان کے نگراں وزیر اطلاعات کے مطابق، اُن کی حکومت صوبہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے دہائیوں پرانے مسئلے کو حل نہیں کر سکتی۔
پندرہ سالہ ماہین بلوچ نے 2017 کے بعد سے اپنے والد کو نہیں دیکھا، جب نامعلوم افراد نے اُنہیں صوبہ بلوچستان کے ایک امتحانی مرکز سے اغوا کیا تھا۔
"میرا خاندان میرے والد کو یاد کرتا ہے۔ میری دادی کی طبیعت خراب ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں ہیں۔ وہ ہمیشہ سوچتی رہتی ہیں کہ اُن کا بیٹا کب واپس آئے گا۔
ماہین اپنے صوبے کے اُن درجنوں افراد میں شامل ہیں، جو ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کر کے دارالحکومت پہنچے ہیں۔اپنے لاپتہ عزیزوں کی تصویریں تھامے، وہ اس امید پر دن رات سخت سردی میںاس انتظار میں ہیں کہ ریاست اُنکے خاندان کے افراد کا سراغ لگائے ،جنہیں مبینہ طور پر سیکورٹی اداروں نے اغوا کیا ہے۔
نومبر میں بالاچ مولا بخش نامی نوجوان کے پولیس کی حراست میں قتل نے شورش زدہ صوبے میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کی تازہ لہر کو جنم دیا۔
خواتین کے زیر قیادت یہ تحریک، بالاچ بخش کے قتل کی غیر جانبدارانہ تحقیقات اور بلوچستان میں لاپتہ افراد کی اصلی تعداد کا تعین کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے حقائق معلوم کرنے ولے مشن کا مطالبہ کر رہی ہے۔
وہ یہ بھی چاہتی ہیں کہ صوبے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کو غیر مسلح کیا جائے اور تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے۔
سمی دین بلوچ بھی اس تحریک کا حصہ ہیں جو بلوچ اتحاد کمیٹی میں شامل ہیں۔ اس بارے میں کہ حکومت کا ان کے احتجاج پر کیا ردعمل ہے، انہوں نے بتا یا کہ ایک وفد ہمارے ساتھ مذاکرات کرنے آیا، اُس نے ہمارے مطالبات کو نوٹ کیا اور کہا کہ وہ ُان پر حکومتی سطح پر بات کریں گے، لیکن بقول ان کے،" اُس کے بعد سے کسی نے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔"
اس وقت پاکستان میں آئندہ ماہ انتخابات تک ایک نگراں حکومت قائم ہے۔نگراں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کی حکومت مظاہرین کے دیرینہ مسائل حل نہیں کر سکتی۔
سولنگی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ،"ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں، جو مستقبل میں پاکستان پر حکومت کریں گی، وہ ا ِن مسائل کا پرامن حل تلاش کریں۔"
ان کا کہنا تھا ہم دہائیوں پرانے مسائل کو حل کرنے کی کوشش بھی نہیں کرنا چاہتے۔
2011سے لاپتہ افراد کے انکوائری کمیشن کے مطابق، اُس نےدو ہزار گیارہ سے 6000 سے زیادہ لوگوں کا سراغ لگایا ہے اور 4000 سے زیادہ اپنے گھروں کو واپس آ چکے ہیں ۔ اب بھی کمیشن کے پاس لاپتہ افراد کے 2000 سے زائد کیسز زیر التوا ہیں۔
ملک کے سیکیورٹی ادارے شہریوں کے اغوا کی تردید کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے عہدہ داروں نے پولیس کی جانب سے بلوچ مظاہرین کو ہراساں کرنے کی رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔گزشتہ ماہ پولیس کے پرتشدد کریک ڈاؤن، بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور مظاہرین کو واپس بلوچستان بھیجنے کی کوششوں کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔
اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے احتجاج کے ساتھ ہی دہشت گردی کے حملوں سے متاثر ہونے والے افراد کا ایک کیمپ بھی نمودار ہوا ۔ جس کے شرکاء نے بلوچ مظاہرین پر دہشت گردوں کے ساتھ ہمدردی کا الزام لگایا۔
پاکستان کے نگراں وزیر اعظم نےبھی حال ہی میں ایسے جذبات کو دہرایا تھا۔
مگر بہت سے دیگر افراد کی طرح ،ماہین بلوچ کے والد پر کبھی کسی جرم کا الزام نہیں لگایا گیا۔وہ کہتی ہیں اگر میرے والد نے کوئی جرم کیا ہے تو اُنہیں عدالت میں پیش کیا جائے، اُنہیں انصاف ملنا چاہیے۔
اس کیمپ کے بہت سے لوگوں کو امید نہیں ہےکہ اُنہیں انصاف ملے گا، لیکن اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس احتجاج جاری رکھنے کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ
فورم