رسائی کے لنکس

طورخم: پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پیر کی شام بھی پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، اتوار کی شب افغان اور پاکستانی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے بعد صورت حال بدستور کشیدہ ہے اور طورخم سرحدی راستہ بند ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم کے مقام پر سرحدی راستے پر اتوار کی شب افغان اور پاکستانی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے بعد صورت حال بدستور کشیدہ ہے اور طورخم سرحدی راستہ بند ہے۔

اطلاعات کے مطابق پیر کی شام بھی پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کے مطابق اتوار کی رات نو بج کر 20 منٹ پر افغان سکیورٹی فورسز کی طرف سے ’طورخم گیٹ‘ پر بلا اشتعال فائرنگ شروع کر دی گئی، جس سے دو پاکستانی فوجی اور نو عام شہری زخمی ہو گیا۔

بیان کے مطابق پاکستان کی طرف سے فائرنگ کا موثر جواب دیا گیا۔

اس سے قبل افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ٹوئیٹر‘ پر اپنے پیغامات میں لکھا کہ ’’ہم اس نے وقت پاکستان سے فائر بندی پر اتفاق کیا ہے۔‘‘ اُنھوں نے اس اُمید کا بھی اظہار کیا کہ سفارت کاری کے ذریعے یہ مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔

بیان کے مطابق پاکستان کی طرف سے فائرنگ کا موثر جواب دیا گیا۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کے مطابق فائرنگ کے تبادلہ میں ایک اہلکار ہلاک اور 17 افراد زخمی ہو گئے۔

’اے پی‘ کے مطابق افغان صوبے ننگرہار کے پولیس سربراہ جنرل زراور زاہد نے کہا ہے کہ فائرنگ سے ایک افغان اہلکار ہلاک اور چھ زخمی ہو گئے ہیں۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ جب پاکستان سے گیٹ کی تعمیر پر کام روکنے کا کہنا گیا تو پاکستانی اہلکاروں کی طرف فائرنگ شروع کر دی گئی۔

اُدھر وزیراعظم نواز شریف نے ایک بیان میں افغان سکیورٹی فورسز کی طرف سے فائرنگ کے اس واقعہ اور اس میں ایک پاکستانی فوجی اہلکار کے زخمی ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

اُنھوں نے بیان میں کہا کہ ’’ہم اس بلا اشتعال حملے کو پاک افغان تعلقات میں (بہتری کے لیے کسی بھی طور) مدد گار نہیں سمجھتے اور توقع کرتے ہیں کہ افغان حکومت فوری طور پر اس واقعہ کے تحقیقات کرے گی۔‘‘

پاکستانی فوج کے بیان کے مطابق طورخم پاکستان اور افغانستان کے درمیان سب سے مصروف سرحدی گزرگاہ ہے اور حال ہی میں بہت سے دہشت گردوں نے اسی راستے کو استعمال کیا۔

بیان کے مطابق دہشت گردوں کی اسی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے پاکستان نے اپنی سرحد کی جانب ایک گیٹ تعمیر کیا۔

عینی شاہدین کے مطابق طورخم پر فائرنگ کا تبادلہ پیر کو طلوع آفتاب سے قبل تک جاری رہا۔ اس دوران پاکستان کی جانب کئی عام شہری بھی زخمی ہوئے۔

واضح رہے کہ پاکستان نے یکم جون سے افغانستان سے ملحقہ طورخم کے سرحدی راستے کے ذریعے بغیر سفری دستاویزات کے لوگوں کی آمد و رفت روک دی تھی۔

پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ طورخم پر سرحدی نظام کو موثر بنایا گیا ہے اور اب صرف اُن ہی افغان شہریوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جائے گی جن کے پاس سفر کے لیے ویزا ہو گا۔

پاکستان نے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں افغان سرحد کے قریب طورخم کے مقام پر اپنی سرحد کی نگرانی بڑھانے اور باڑ لگانے کا کام شروع کیا تھا، لیکن اس بارے میں افغان حکام کے اعتراض کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی پیدا ہو گئی اور طورخم سرحد مئی کے دوسرے ہفتے میں چار روز تک بند رہی۔

تاہم پاکستان میں افغان سفیر حضرت عمر زخیلوال نے 13 مئی کو جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں اس معاملے پر بات کی تھی جس کے بعد طورخم سرحد کو چار روز بعد آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا تھا۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد لگ بھگ 2600 کلومیٹر طویل ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس سرحد کے دشوار گزار راستوں کو شدت پسند ایک سے دوسرے ملک میں داخلے کے لیے گزر گاہوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

پاکستانی حکام کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ باقاعدہ سرحدی راستوں کے ذریعے بھی عام شہریوں کے بھیس میں دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں پاکستان کی طرف سے ناصرف افغان حکومت بلکہ افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے کمانڈروں سے پاک افغان سرحد کی نگرانی موثر بنانے کے حوالے سے بات چیت ہوتی رہی ہے۔

پاکستانی حکام کا ماننا ہے کہ سرحد کی کڑی نگرانی سے دونوں ہی ملکوں میں امن و امان کے لیے کی جانے والی کوششیں کامیاب ہوں گی۔

XS
SM
MD
LG