پاکستان کی نگراں وفاقی کابینہ کی حلف برداری کی تقریب جمعرات کو ایوان صدر میں ہوئی تو نگراں کابینہ کے لیے نامزد کئی نئے چہرے نظر آئے۔
تقریب کا وقت پانچ بجے رکھا گیا تھا، وقت سے پہلے ہال میں پہنچا تو صحافی، ایوانِ صدر کا عملہ اور وفاقی سیکریٹریز بھی وزرا کے ناموں سے لاعلم تھے۔
بہر حال کچھ وقت گزرنے کے ساتھ لوگ ہال میں داخل ہوتے رہے اور وزرا کی مختص نشستوں پر کچھ جانے پہچانے، کچھ شناسا اور کچھ غیر معروف چہرے براجمان ہونے لگے۔
ایسے میں اضطراب بڑھا اور صحافیوں نے سرگوشیوں میں وزرا کی نشستوں پر بیٹھے افراد کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیا۔
ساتھی صحافیوں سے کابینہ میں شامل نا آشنا شخصیات کی معلومات اکھٹی کیں اور حلف برداری کے لیے اپنی نشستوں پر براجمان شخصیات کی طرف بڑھا۔
ابھی آگے بڑھ ہی رہا تھا کہ اسی اثنا میں سینیٹر سرفراز بگٹی ہال میں داخل ہوئے۔ ان سے استفسار کیا کہ آیا وزارتِ داخلہ کا قلم دان وہ ہی سنبھالیں گے تو سرفراز بگٹی نے بات کرنے کے بجائے صرف اثبات میں سر ہلایا۔
ابھی سرفراز بگٹی کے پاس ہی کھڑا تھا کہ مذہبی اسکالر اور ٹی وی میزبان انیق احمد ہال میں داخل ہوئے جن کے متعلق پہلے سے معلوم تھا کہ وہ وزارتِ مذہبی امور کا قلم دان سنبھالیں گے۔ صبح ہی کراچی سے ایک صحافی دوست نے فون کر کے کہا تھا کہ انیق احمد اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔
انیق احمد حال احوال کے بعد اپنی نشست پر بیٹھے تو ایک شخصیت نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اندازہ ہوا کہ وہ ڈاکٹر ندیم جان ہیں جن کی صحت کے شعبے میں خدمات کے نتیجے میں حال ہی میں حکومت نے انہیں سرکاری اعزاز سے نوازا ہے۔
ایک صحافی نے مدد علی سندھی سے تعارف کروایا کہ انہیں وزارتِ تعلیم کا قلم دان سونپا جا رہا ہے۔
یوں نشستوں پر براجمان تمام شخصیات سے تعارف شروع ہو گیا سابق وفاقی سیکریٹری شاہد ٹارڑ، ڈاکٹر عمر سیف، کلیم جارج، گوہر اعجاز، عرفان اسلم، شمشاد اختر سے رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا۔
ایسے میں سینئر صحافی مرتضی سولنگی ہال میں داخل ہوئے اور ان کے گرد صحافی جمع ہو گئے اور گپ شپ شروع ہو گئی۔ پنجاب کے نگراں وزیرِ اعلی محسن نقوی بھی اس گفتگو میں شامل ہو گئے۔
اسی اثنا میں جلیل عباس جیلانی بھی ہال میں داخل ہو گئے اور یوں وفاقی وزرا کی لگی ہوئی نشستیں پوری ہو گئیں۔
جلیل عباس جیلانی نے ہاتھ ملاتے ہی کہا کہ میں نے ایک ماہ پہلے آپ سے کہا تھا کہ نگراں وزیرِ اعظم کی ذمے داری نہیں سنبھال رہا بلکہ کوئی اور ذمے داری ہے۔
یہ مراحل چل رہے تھے کہ ہال میں اعلان ہوا کہ سب لوگ اپنی نشستوں پر چلے جائیں اور کچھ دیر کے بعد صدر عارف علوی اور نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ ہال میں داخل ہوئے۔
قومی ترانے اور تلاوت کے بعد حلف برداری کی تقریب کا آغاز ہوا۔
آرمی چیف اور دیگر سروسز چیف تقریب میں شریک نہیں ہوئے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کی قیادت موجود تھی۔ تقریب کے بعد وزرا نے صدر اور نگراں وزیر اعظم سے مصافحہ کیا۔
نگراں وزیرِ اعظم کے ساتھ موجود سرفراز بگٹی سے پوچھا کہ انہوں نے کتنی مدت کے لیے حلف اٹھایا ہے تو وہ کہنے لگے اللہ جانے۔
لیکن یہی سوال جب مرتضی سولنگی سے کیا تو انہوں نے کہا کہ مدت کا تعین الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ہو گا اور اب سپریم کورٹ کا بھی اس میں عمل دخل ہو گیا ہے کیوں کہ یہ معاملہ عدالت میں بھی زیرِ سماعت ہے۔
وزرا پر نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ نگراں کابینہ زیادہ تر ٹیکنو کریٹ شخصیات پر مشتمل ہے جس میں ریٹائرڈ بیورو کریٹ، مختلف شعبوں کے ماہرین، کاروباری شخصیات اور سیاسی چہروں کا امتزاج ہے۔
فورم