|
ایران کی وزارت خارجہ نے جمعے کے روزکہا کہ پڑوسی ملک افغانستان میں دریائے ہریرود پر جو ڈیم تعمیر کیا جارہا ہے اس سے اس کی جانب پانی کا بہاؤ متاثر ہوگا اور اس سے دوطرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے ۔
دریائے ہریرود ،جو ہری اور تیجن کے طور بھی معروف ہے ، وسطی افغانستان سے ترکمانستان کے پہاڑوں کی جانب بہتا ہے ، اور افغانستان اور ترکمانستان دونوں کے ساتھ واقع ایران کی سرحدوں کے ساتھ سے گزرتا ہے۔
تہران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے جمعے کے روز افغانستان کی جانب سے پشدان ڈیم کے پراجیکٹ پر سخت احتجاج اور تشویش کا اظہار کیا کیوں کہ اس کی وجہ سے ایران میں داخل ہونے والے پانی کی مقدار پر اثر پڑ سکتا ہے ۔
تہران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا کہ ،’’ دو طرفہ معاہدوں کے مطابق یا قابل اطلاق روائتی اصولوں اور ضابطوں کے مطابق اور اس کے ساتھ ساتھ اچھی ہمسائیگی اور ماحولیات کے اہم اصولوں کے مطابق، ایران کے حقوق کے احترام کے بغیر آبی وسائل اور آبی منبوں کا استحصال نہیں کیا جاسکتا ۔
اقتصادی امور کے لیے افغانستان کے نائب وزیر اعظم عبد الغنی برادر نے گزشتہ ماہ ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ پشدان پراجیکٹ تکیمل کے قریب ہے اور اس پراجیکٹ نے پانی کو ذخیرہ کرنا شرو ع کر دیا ہے ۔
ویڈیو کے مطابق افغانستان کے صوبے ہرات میں یہ ڈیم تقریباً 54 ملین کیوبک میٹرزپانی ذخیرہ کرے گا، 13 ہیکٹر زرعی اراضی کو سیراب کرے گا اور دو میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا۔
اپریل میں برادر نے کہا تھا کہ ڈیم صوبے ہرات میں ایک اہم اور اسٹریٹیجک پراجیکٹ ہے ۔
مئی 2023 میں ایران نے دریائے ہلمند پر ڈیم کے ایک اور پراجیکٹ پر افغان حکام کو ایک سخت انتباہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اس سے جنوب مشرقی ایران میں خشک سالی سے متاثرہ صوبے ، سیستان۔بلوچستان کے رہائشیوں کے پانی کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔
ایران افغانستان میں پانی کا تنازعہ کیوں ؟
ایران اور افغانستان دونوں 900 کلومیٹر سے زیادہ مشترکہ سرحد کے حامل ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے حقوق ایک عرصے سے چپقلش کا باعث رہے ہیں ۔
افغانستان دنیا کے ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں پانی کی بڑی مقدار موجود ہے جو آمو دریا، دریائے ہلمند، دریائے ہریرود اور دریائے کابل کی شکل میں اس ملک کو پانی کےآبی وسائل سے ہمکنار کیے ہوئے ہیں ۔
یہ تمام آبی وسائل افغانستان کے اندر موجود ہیں لیکن ان کا پانی پڑوسی ملکوں ایران ، ترکمانستان اور پاکستان میں بھی داخل ہوتا ہے اس لیے وہ بھی ان کے حصے دار ہیں
دریائے ہریرود اور دریائے ہلمند
افغانستان اور ایرا ن دریائے ہریرود اور دریائے ہلمند کے پانی کے مشترکہ حصے دار ہیں ۔
دریائے ہریرود ،جو ہری اور تیجن کے طور بھی معروف ہے ، وسطی افغانستان سے ترکمانستان کے پہاڑوں کی جانب بہتا ہے ، اور افغانستان اور ترکمانستان دونوں کے ساتھ واقع ایران کی سرحدوں کے ساتھ سے گزرتا ہے ۔
دریائے ہلمندافغانستان کا سب سے طویل دریا ہے جس کی لمبائی تقریباً 1,150 کلومیٹر یا 715 میل ہے۔ یہ دریا ملک کے جنوبی اور جنوب مغربی صوبوں کے لیے روزگارکا ایک اہم ذریعہ ہے۔ دریائے ہلمند ایران کے صوبہ سیستان اور بلوچستان میں واقع ہامون جھیل کو پانی مہیا کرتا ہے جو صوبے کا اہم آبی ذریعہ ہے۔
ایران اور افغانستان کے درمیان آبی معاہدے
ایران اور افغانستان میں مشترکہ پانی کے معاہدے موجود ہیں۔ ایران اور افغانستان نے 1973 میں دریائے ہلمند کے پانی کے معاہدے پر دستخط کیےتھے جس کے تحت افغانستان کو ایک عام سال میں ایران کو 850 ملین کیوبک پانی فراہم کرنا تھا۔
تہران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے اپنے بیان میں کہا ، ایران کو افغانستان سے توقع ہے کہ وہ سرحدی دریاؤں سے پانی کا بہاؤ جاری رکھنے اور ان کے راستے میں پیداہونے والی رکاوٹیں دور کرنے کے لئے تعاون کرے گا ۔
انہوں نےکہا کہ ایران کے خدشات متعلقہ افغان حکام کو پہنچا دیے گئے ہیں۔
وزارت خارجہ کی جانب سے جمعے کا بیان پانی کے امور سے متعلق ایران کے ایک عہدے دار کی جانب سے ایسی ہی تنقید کے بعد سامنے آیا ہے ۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے ایران کی نیشنل واٹر انڈسٹری کے ترجمان ، عیسیٰ بزرگ زادہ سے یہ بیان منسوب کیا کہ ، ’’ صورتحال نے سماجی اور ماحولیاتی مسائل کو جنم دیا ہے ، جس سے خاص طور پر مقدس شہر مشہد کے لئے پینے کے پانی کی فراہمی متاثر ہورہی ہے ، جو ایران کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے اور افغان سرحد کے قریب شیعوں کی ایک مقدس زیارت گاہ ہے ۔‘‘
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم