اگرچہ پاکستانی ٹیم نے ورلڈ کپ کے ابتدائی تین میچوں میں کامیابی حاصل کی لیکن گیم پلان میں ہر بار خامیاں سامنے آئیں جس کی مبصرین نے نشان دہی بھی کی، جن پر تنقید بھی کی گئی مگر ٹور مینیجمنٹ کمیٹی، ٹیم مینیجر انتخاب عالم کا کہنا ہے کہ ’’ ہم نے اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھے ہوئے ہیں ۔۔۔ (یعنی سن سب کی رہے ہیں) کریں گے وہی جو ہم سمجھتے ہیں (ظاہر ہے ان کو ایسا کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے)۔
اس ایونٹ میں پاکستان کا گیم پلان اگر دو لفظوں میں بیان کرنا ہو تو یوں ہو گا۔۔۔۔ ’’اوور کڈھو‘‘ یعنی بالرز کو کہا گیا ہے کہ اوور نکالو۔۔۔۔ رنز روکنا ٹیم کے سامنے ہے۔۔۔ وکٹ لینا نہیں۔۔۔۔۔۔ اگر ایسا نہ ہوتا توپالکلے کی سیمنگ کنڈیشنز پر پاکستانی اسکواڈ میں سوئنگ میں ہی شہرت رکھنے والے بالر عمرگل کی بجائے فنگر اسپنر عبدالرحمان سے اٹیک نہ کرایا جاتا۔
لگتا ہے کپتان نے کبھی سوچا بھی نہیں کہ مخالف ٹیم کی وکٹییں لینے سے بھی رنز روکے جا سکتے ہیں، جیتا جا سکتا ہے۔۔ ایک ہی سوچ جو غالب نظر آتی ہے کہ اوور نکالو۔۔اور رنز روکو۔۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وکٹیں لینے میں شہرت رکھنے والے سعید اجمل کو ڈریسنگ روم میں نہ بٹھایا جاتا۔ بقول کسے سعید اجمل کو اگر اس وقت ’’نیلام‘‘ کیا جائے تو آسٹریلیا جیسی ٹیم ایک منٹ سے بھی پہلے اس کی بولی دے مگر پاکستانی ٹیم اور ٹور مینجمنٹ کمیٹی کے اذہان اس جادوئی باولنگ کرنے والے کو گراؤنڈ سے باہر بٹھانے میں ہی خوش ہیں۔ عمران خان، وسیم اکرم ، رمیض راجہ اور عامرسہیل جیسے سابق کپتان اس فیصلے پر انگشت بدنداں ہیں۔ اور تو اور غیر ملکی کمنٹیٹرز کو یقین نہیں آ رہا کہ سعید اجمل ’’بارھواں کھلاڑی ‘‘ ہے۔۔۔۔ مگر ٹیم کے کوچ وقار یونس جنہیں بڑا کرکٹنگ برین خیال کیا جاتا ہے نیوزی لینڈ کے خلاف میچ سے قبل ہی کہہ چکے تھے سعید اجمل کو ٹیم میں شامل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔
کپتان شاہد آفریدی باربارباور کراتے ہیں کہ وہ اٹیکنگ ۔۔ جارحانہ اور مثبت کرکٹ کھیلنے کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ مگر کیا گراؤنڈ میں بھی ایسا ہوتا ہے؟ لیکن مبصرین کے مطابق اگر تو گیند کو پوری طاقت سے ، سوچے سمجھے بغیر ہٹ کرنے کا نام جارحانہ کرکٹ ہے تو پھر تو آفریدی ٹھیک ہی کہتے ہیں مگر اگرمخالف ٹیم کو پریشرمیں لانے، اس کی وکٹیں حاصل کرنے اور پھردباؤ بڑھائے رکھنے اور اس کے گیم پلان کو سمجھ کر اس کو ناکام بنانے کا کا نام جارحانہ کرکٹ ہے تو پھر تو آفریدی سے معذرت سے ہی کہنا پڑے گا کہ یہ سب کچھ ان کی حکمت عملی کا حصہ نہیں لگتا۔ کنییڈا کے خلاف میچ میں جب پاکستانی ٹیم 184 پر ڈھیر ہو گئی توایک جارح کپتان کو پتا ہونا چاہیے تھا کہ یہ گیم اب صرف 35 سے 40 اوورز کی ہے۔ اور جیت کا واحد راستہ مخالف کم تجربہ کار ٹیم کو آؤٹ کرنا ہے۔۔۔اس کے لیے جارحانہ فیلڈ پلان اور باولنگ پلان چاہیے تھا کیونکہ کوئی بھی ٹیم اگراس سے زیادہ اوور کھیل جاتی ہے تو خود بخود جیت جائے گی، مگر مبصرین کے بقول ٹیم یہاں بھی ’’اوور کڈھو‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا رہی۔ 28 اوور میں جب پرانا ہو گیا تھا اور ممکنہ طور پر سوئنگ ہو سکتا تھا کپتان نے ریورس سوئنگ میں شہرت رکھنے والے باؤلرز کی بجائےایک پارٹ ٹائم اسپنر کو ترجیح دیے رکھی۔۔۔ اورایک موقع پر لگ رہا تھا کہ کینیڈا کی ٹیم آسانی سے میچ جیت جائے گی۔ یہی کچھ سری لنکا کے خلاف بھی نظر آیا۔ اسی طرح اگر دسویں نمبر پر بھی کھلاڑی کا انتخاب اس بنیاد پر کریں کہ وہ بہتر بیٹنگ کر سکتا ہے اور اسے اس باولرپر ترجیح دیں جو مخالف ٹیم کی کمر توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اس اپروچ کو بھی قطعا مثبت نہیں کہا جاسکتا۔ بقول سابق کرکٹرز کے اگر اوپر کے چھ بلے باز میچ نہیں جتوا سکتے تو 10ویں نمبر والا کبھی نہیں جتوائے گا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف یہ کچھ سچ بھی ثابت ہوا۔ عبدالرزاق نے 8 ویں نمبر پر آکر 62 رنز کی شاندار اننگ کھیلی اور عمر گل نے 9ویں نمبر پر 34 رنز جارحانہ انداز میں بنائے مگر یہ دونوں اننگز ٹیم کو فتح نہ دلا سکیں۔
اوور نکالو کی حکمت عملی صرف باولنگ میں نہیں، بیٹنگ میں بھی نظر آتی ہے۔ مڈل آرڈر سے جیسے کہہ دیا گیا ہے کہ اوور کڈھو۔۔۔۔ باقی ’’کرشمہ‘‘ آخر میں آنے والے ہارڈ ہٹرز کریں گے۔۔۔۔ اوورز تو نکل گئے سلو رن ریٹ کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جب ہارڈ ہٹرز فیل ہوتے ہیں تو ٹیم 184 پر ڈھیر ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔ ضروری نہیں کہ آخر کے اسٹرائیکر ہر بار کرشمہ کر دکھائیں۔۔۔۔ کپتان شاہد آفریدی کو تو خوب اس بات کا پتا ہونا چاہیے جنہوں نے 14 برس پہلے 37 گیندوں پر تیزترین سنچری بنائی تھی مگر ایسا دوبارہ نہیں کر سکے۔۔۔۔۔
اب جب کہ نیوزی لینڈ نے 28 برسوں کے بعد پاکستانی ٹیم کو ورلڈ کپ مقابلوں میں شکست دے دی ہے وہ بھی ایسے حالات میں جب یہ ٹیم بنگلہ دیش سے بھی حالیہ دنوں میں ہار چکی ہے اور اپنی سرزمین پر پاکستان سے بھی شکست سے دوچار ہوئی ہے، پاکستانی ٹیم اور اس کے گیم پلان کی خامیاں بری طرح اکسپوز ہو چکی ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایونٹ میں کم بیک کرنے کے لیے ٹیم مینیجمنٹ کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا اور باہر بیٹھے اپنے اپنے دور کے لیجنڈز کی بات پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ جو پلیئر پرفارم نہیں کر رہا اسے کسی کے ساتھ اچھے تعلقات یا فرمانبرداری پر پلے انگ الیون میں شامل نہیں ہونا چاہیے اس کی جگہ پندرہ میں شامل باقی کھلاڑیوں کو موقع دینا چاہیے۔ اسد شفیق کی صلاحیت پر کسی کہ شبہہ نہیں ہے اور جنید خان کو اگر بڑے دعووں کے ساتھ ٹیم میں شامل کیا گیا ہے تو اسے بھی زمبابوے کے خلاف آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔ نیا خون کسی بھی ٹیم کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہوتا ہے۔۔۔۔ محمد عامر بھی دو سال قبل نیا ہی تھا۔۔۔
جارحانہ کرکٹ آسٹریلیا کی ٹیم کا خاصہ ہے جو اپنے شہرہ آفاق پلیئرز کی ریٹائرمنٹ یا ان کی عدم دستیابی کے باوجود بھی تین ریگولرپیسرز اور دو سپنرز کے ساتھ پانچ مستند باولز پر بھروسہ کیے ہوئے ہے۔ وہ رنزوں کے انبار نہیں لگا رہی مگر کسی بھی ٹیم کو ان کے خلاف 250 کا ہدف بھی پہاڑ ہی لگے گا۔۔۔۔ آسٹریلیا کی ٹیم جانتی ہے کہ اگر اس کے پہلے 6 کھلاڑی رنز نہیں بنا سکے تو 10ویں نمبر والے نے بھی کوئی معرکہ نہیں مارنا ہے۔ ایسی ہی حکمت عملی جنوبی افریقہ کی ٹیم کی ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم کے اذہان خاص طور پر کپتنان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ میچ صرف لکڑی کے بیٹ سے ہی نہیں چمڑے کی گیند سے بھی جیتا جا سکتا ہے۔ میچ صرف رنزوں کے ڈھیر لگانے سے نہیں مخالف کی 10 وکٹیں لینے سے بھی جیتا جا سکتا ہے اور کرکٹ پنڈٹس کے بقول میچ اکثر باولر ہی جتوایا کرتے ہیں۔ بھلے بیٹنگ فلاپ ہو رہی ہے بلے بازوں کی نیچے نمبروں پر بھرتی کی بجائے پانچویں باولر کو ٹیم میں شامل کیے جانے کی ضرورت ہے تاکہ مخالف ٹیم کے لیے آپ کے 184 رنز کا معمولی ہدف بھی مشکل ہو۔ یہی کچھ سابق فاتح کپتان عمران خان بھی کہہ رہے ہیں۔۔۔۔ مگر ٹیم مینیجمنٹ کہتی ہے ہم سنتے سب کی ہیں کرتے اپنی ہیں۔۔۔۔ ضرور کیجےمگرایک بات بہرحال مسلمہ ہے کہ کوئی بھی ٹیم ’’اوور کڈھو ‘‘ کے حکمت عملی سے ورلڈ چیمپئن نہیں بنتی ۔۔ چیمپئن بننے کے لیے چیمپنیز کی طرح سوچنا بھی پڑتا ہے۔