پاکستان کے صحافیوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے ملک کے ایک اہم انگریزی روزنامے ڈان کی حمایت میں ریلیاں نکالیں ۔چند روز پہلے نامعلوم افراد نے اسلام آباد میں ڈان کے دفتر کا محاصرہ کر کے مخالفانہ نعرے لگائے اور کارکنوں کو دھمکیاں دی تھیں۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ڈان نے اپنی ایک خبر میں لندن میں چاقو کے وار کر کے دو افراد کو ہلاک کرنے والے عثمان خان کو مبینہ طور پر پاکستانی نژاد لکھا تھا جب کہ وہ برطانیہ میں پیدا ہوا تھا۔
منگل کے روز ڈان اخبار کے دفتر اور ڈان ٹیلی وژن چینل کے محاصرے اور دھمکیاں دینے کے واقعہ کی میڈیا کی بین الاقوامی تنظیموں اور پاکستانی صحافیوں نے مذمت کی تھی۔
مظاہرین نے اخبار کے ایڈیٹر ظفر عباس اور پبلشر حمید ہارون کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے لندن برج کے حملہ آور کے بارے میں یہ کیوں لکھا کہ اس کا تعلق پاکستان سے تھا۔
برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق عثمان خان اگرچہ برطانیہ میں پیدا ہوا تھا، لیکن پاکستانی کنٹرول کے کشمیر میں ان کے خاندان کی پراپرٹی تھی۔ اس نے کچھ عرصہ وہاں گزارا تھا اور مبینہ طور پر اپنی اراضی میں جہادی تربیتی کیمپ بھی قائم کیا تھا۔ پاکستان سے برطانیہ واپسی کے بعد اس کے خیالات متشددانہ ہو گئے تھے۔
پولیس نے عثمان خان کو موقع پر ہی گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
جمعرات کو نکالی جانے والی ریلیوں میں سرگرم کارکنوں اور صحافیوں نے اس ہفتے اسلام آباد میں ڈان کے دفتر کے محاصرے کی مذمت کی۔
ڈان کے محاصرے کے خلاف جمعرات کو اسلام آباد، کراچی، لاہور اور کوئٹہ میں ڈان کے دفاتر اور ملک کے کئی پریس کلبوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور ڈان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ مظاہرین نے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر ڈان کی حمایت میں نعرے درج تھے۔
کراچی میں مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس نے کہا ہے کہ یک بعد دیگرے میڈیا کے تمام اداروں کو دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔