پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ضرورت پڑنے پر سوشل میڈیا نیٹ ورکس کو بلاک کیا جاسکتا ہے کیوں کہ نو مئی کو ہونے والے تشدد کے بیج سوشل میڈیا پر بوئے گئے تھے۔
نجی نیوز چینل 'جیو نیوز' سے بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ امریکہ، برطانیہ اور چین جیسے ممالک سب ہی سوشل نیٹ ورکس کو ریگولیٹ کرتے ہیں۔پاکستان میں اس میڈیم کا استعمال لوگوں کو ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
انٹرنیٹ پر صارفین کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ وزیردفاع کا یہ بیان غیرضروری اور حقیقت کے خلاف ہے کیوں کہ سوشل میڈیا کو روکنے سے پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر میں اربوں روپے کا نقصان پہلے ہو ہی چکا ہے اور آئندہ ایسے اقدامات سے عالمی سطح پر پاکستان کا نام خراب ہوگا۔
وزیر دفاع نے اپنے بیان میں کہا کہ نو مئی کے تشدد کا اسکرپٹ سوشل میڈیا کے ذریعے تیار کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ نو مئی کو پاکستان کے سابق وزیرِاعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد ہنگاموں کو روکنے کے لیے حکومت نے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ معطل اور سوشل میڈیا سروسز کو بلاک کردیا تھا۔
نو مئی کے پرتشدد واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ فوج کی جانب سے اپنے افسران اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف کارروائیوں کے اعلان کے بعد یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ فسادات کے ذمہ داروں کے احتساب کو یقینی بنائے۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سربراہ نگہت داد کہتی ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کے حوالے سے بہت سے قوانین پہلے سے بنے ہوئے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ ادارہ جس کا کام ان قوانین پر عمل درآمد کروانا ہے وہ اس پر کچھ نہیں کررہا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد اصل مسئلہ ہے۔ اگر پاکستان اس بارے میں بہتری چاہتا ہے تو یورپی یونین کے اس سے متعلق قوانین کا جائزہ لیا جائے ۔
ان کے بقول جس طرح سے وہ اپنے قوانین کو نئی جدتوں کے مطابق بہتر بنا رہے ہیں ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔
نگہت داد کا کہنا تھا کہ اگر ملک میں جمہوریت ہے تو پھر ایسے بیانات کی ضرورت نہیں لیکن اگر ملک کو آمرکے انداز میں چلانا ہے تو پھر حکومت جو چاہے وہ کرلے۔پاکستان میں آئین موجود ہے اور آئین میں جو بنیادی انسانی حقوق دیے گئے ہیں ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ نو مئی کے واقعات افسوس ناک ہیں لیکن ان کی وجہ سے پاکستان میں سوشل میڈیا پر پابندیاں عائد نہیں کی جاسکتیں۔ پاکستان نے اس بارے میں مختلف کنوینشنز سائن کررکھے ہیں۔
ان کے بقول وزیردفاع نے امریکہ، برطانیہ اور چین کی مثال دی ہے لیکن ان ممالک کے ماڈلز بالکل مختلف ہیں۔ اگر پاکستان اس بارے میں بہتری چاہتا ہے تو سوشل میڈیا رولز پر تمام فریقین کو اکٹھا کیا جائے۔ تمام فریقین ایک متفقہ قوانین پر متفق ہوجائیں گے تو پاکستان بھی یورپی ممالک کے قوانین کے برابر آسکتا ہے۔
ریسرچ تھنک ٹینک بائٹس فار آل کے محمد شہزاد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیردفاع کا یہ بیان افسوس ناک اور غیرذمہ دارانہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کو بند نہیں کیا جاسکتا۔ اگر حکومت اسے بلاک بھی کردے تو پراکسی کے ذریعے اس کا استعمال پاکستان میں اتنا عام ہوچکا ہے کہ لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی کئی بار مختلف سائٹس کو بلاک کیا گیا لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔
محمد شہزاد کا کہنا تھا کہ حکومت کو اندازہ ہونا چاہیے کہ نو مئی کو جب انہوں نے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر پابندی لگائی تھی تو ان دنوں میں کس قدر نقصانات ہوئے تھے۔
ان کے بقول حکومت ایک طرف تو انٹرنیٹ اور آئی ٹی سیکٹر کے ذریعے اربوں روپے کمانے کے منصوبے بناتی ہے تو دوسری جانب ایسے بیانات کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کی سبکی بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا میرے خیال میں ایسے بیانات کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔
پاکستان میں نو مئی کو تین سے چار دن تک انٹرنیٹ بند ہونے کے حوالے سے مختلف ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دنوں کے اندر پاکستان کو پانچ کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کا نقصان ہوا۔ ٹیلی کام کمپنیوں کو ایک دن میں 82 کروڑ روپے کا نقصان ہوا جب کہ حکومت کو ٹیکس آمدن کی مد میں تقریبا 28 کروڑ 70 لاکھ کا نقصان ہوا تھا۔
فریڈم ہاؤس کی سال 2022 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں انٹرنیٹ پر آزادی حاصل نہیں ہے اور پاکستان کو 100 میں سے صرف 26 پوائنٹس دیے گئے ہیں۔