پشاور —
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کی ایک عدالت نے شکیل آفریدی کی سزا کالعدم قرار دینے کے درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو کہ 15 مارچ کو سنایا جائے گا۔
پشاور میں کمشنر کی عدالت کے سامنے استغاثہ اور وکلائے صفائی نے پیش ہو کر دلائل دیے۔
شکیل آفریدی کے وکلا کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کو قانون کے مطابق اپنی صفائی پیش کرنے کا حق دیا جائے اور ان کے خلاف مقدمے کی از سر نو سماعت بھی کی جائے۔
شکیل آفریدی کو مئی 2011ء میں ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے القاعدہ کے روپوش سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے کی مدد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
لیکن بعد ازاں 2012ء میں قبائلی علاقے کی پولیٹیکل انتظامیہ نے اسے ایک کالعدم شدت پسند تنظیم سے روابط کے الزام میں 33 سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔
کمشنر پشاور نے گزشتہ سال ان کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پولیٹیکل انتظامیہ کو مقدمے کی دوبارہ سماعت کے لیے کہا تھا لیکن اس ہدایت میں ابہام کی وجہ سے یہ کارروائی نہ ہوسکی اور فاٹا ٹربیونل نے شکیل آفریدی کی نظر ثانی کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
شکیل آفریدی کے وکیل سمیع اللہ نے وائس آف امریکہ کو ہفتہ کو کمشنر پشاور کی عدالت میں ہونے والی سماعت کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ شکیل آفریدی کو اس سے قبل ٹربیونل نے سنا ہی نہیں تو ہمارا موقف ہے کہ اسے سنا جائے کوئی گواہ یا شہادت کے تو وہ سامنے لائی جائے اور پھر جو قانون کے مطابق کسی بھی شہری کو اپنے دفاع کا حق ہے وہ ڈاکٹر آفریدی کو دیا جائے۔‘‘
ڈاکٹر آفریدی پشاور کی مرکزی جیل میں قید ہے جہاں ان کے وکلاء کے بقول شدت پسند تنظیموں کے لوگ بھی قید ہیں جن سے شکیل آفریدی کی جان کو خطرہ ہے۔
حالیہ مہینوں میں امریکی عہدیداروں کی طرف سے شکیل آفریدی کو رہا کرنے کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے تاہم پاکستانی حکام کے بقول یہ معاملہ عدالت میں ہے اور شکیل آفریدی کی قسمت کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔
پشاور میں کمشنر کی عدالت کے سامنے استغاثہ اور وکلائے صفائی نے پیش ہو کر دلائل دیے۔
شکیل آفریدی کے وکلا کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کو قانون کے مطابق اپنی صفائی پیش کرنے کا حق دیا جائے اور ان کے خلاف مقدمے کی از سر نو سماعت بھی کی جائے۔
شکیل آفریدی کو مئی 2011ء میں ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے القاعدہ کے روپوش سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے کی مدد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
لیکن بعد ازاں 2012ء میں قبائلی علاقے کی پولیٹیکل انتظامیہ نے اسے ایک کالعدم شدت پسند تنظیم سے روابط کے الزام میں 33 سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔
کمشنر پشاور نے گزشتہ سال ان کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پولیٹیکل انتظامیہ کو مقدمے کی دوبارہ سماعت کے لیے کہا تھا لیکن اس ہدایت میں ابہام کی وجہ سے یہ کارروائی نہ ہوسکی اور فاٹا ٹربیونل نے شکیل آفریدی کی نظر ثانی کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
شکیل آفریدی کے وکیل سمیع اللہ نے وائس آف امریکہ کو ہفتہ کو کمشنر پشاور کی عدالت میں ہونے والی سماعت کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ شکیل آفریدی کو اس سے قبل ٹربیونل نے سنا ہی نہیں تو ہمارا موقف ہے کہ اسے سنا جائے کوئی گواہ یا شہادت کے تو وہ سامنے لائی جائے اور پھر جو قانون کے مطابق کسی بھی شہری کو اپنے دفاع کا حق ہے وہ ڈاکٹر آفریدی کو دیا جائے۔‘‘
ڈاکٹر آفریدی پشاور کی مرکزی جیل میں قید ہے جہاں ان کے وکلاء کے بقول شدت پسند تنظیموں کے لوگ بھی قید ہیں جن سے شکیل آفریدی کی جان کو خطرہ ہے۔
حالیہ مہینوں میں امریکی عہدیداروں کی طرف سے شکیل آفریدی کو رہا کرنے کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے تاہم پاکستانی حکام کے بقول یہ معاملہ عدالت میں ہے اور شکیل آفریدی کی قسمت کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔