بدعنوانی پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے 'ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل' نے منگل کو 180 ممالک میں کرپشن کی صورتِ حال سے متعلق رپورٹ جاری کر دی ہے۔ پاکستان کرپٹ ممالک کی فہرست میں124 سے 140 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کا 2020 میں 'کرپشن پرسیپشن اسکور' 31 تھا جو کم ہو کر 2021 میں 28 ہو گیا ہے یعنی 2020 کے مقابلے میں پاکستان میں کرپشن میں تین درجے اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ 10 برس کے دوران آخری بار پاکستان کا سب سے زیادہ کرپشن پرسپشن اسکور 2012 میں 28 تھا جو ایک مرتبہ پھر 10 برس بعد 28 ہو گیا ہے یعنی 2012 میں پاکستان میں جو کرپشن کا لیول تھا ایک دہائی بعد پاکستان اسی مقام پر کھڑا ہے۔
یاد رہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں کرپشن کے حساب سے انہیں اسکور دیا جاتا ہے جو صفر سے 100 تک ہوتا ہے۔ 100 اسکور حاصل کرنے والے ملک کرپشن سے پاک سمجھے جاتے ہیں جب کہ صفر اسکور والے ممالک کو انتہائی کرپٹ سمجھا جاتا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں قرار دیا کہ پاکستان میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے اور ملک میں ہر سطح پر رشوت ستانی موجود ہے۔
'رپورٹ میں حکومت کی مالی کرپشن کا ذکر نہیں'
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں پاکستان کا اسکور مالی کرپشن کی وجہ سے نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی کی وجہ سے کم ہوا ہے جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کے دوران کرپشن میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
اسلام آباد میں منگل کو پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ میں آٹھ اداروں کی رپورٹس شامل ہیں اور تمام اداروں نے پاکستان کی رینکنگ کو برقرار رکھا ہے اور صرف اکنامک انٹیلی جنس یونٹ کی رپورٹ میں پاکستان کے اسکور کو گرایا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانون کی حکمرانی پر پاکستان میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اور حکومت سمجھتی ہے کہ عدلیہ کااس میں اہم کردار ہو گا۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ 10 برس کے دوران پاکستان کا سب سے نمایاں پرسپشن اسکور 2018 میں 33 تھا جس کے بعد اس میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔یعنی ملک میں کرپشن بڑھ رہی ہے۔
سن 2018 میں پاکستان کرپٹ ملکوں کی عالمی درجہ بندی میں 117ویں نمبر پر تھا۔ سال 2019 میں یہ تین درجہ تنزلی کے بعد 120 پر تھا اور پھر 2020 میں مزید چار درجے گر کر 124 درجے پرچلا گیا تھا۔ گزشتہ تین برس کے دوران پاکستان ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی عالمی درجہ بندی میں مجموعی طور پر 23 درجے تنزلی کا شکار ہو چکا ہے۔
حکومتِ پاکستان کا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر کہنا ہے کہ عالمی اداروں کی آٹھ میں سے سات رپورٹس میں کوئی فرق نہیں ہے اور صرف ایک رپورٹ کے باعث کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) کی ٹوٹل رینکنگ میں تنزلی ہوئی ہے۔
وفاقی وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے ایک سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں حکومتی سطح پر کسی قسم کی مالی کرپشن کا ذکر نہیں ہے۔ انہوں نے اپوزیشن کی تنقید کو بلاجواز قرار دیا ہے۔
گزشتہ برس ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جاری کردہ رپورٹ کو وفاقی حکومت نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار گزشتہ دورِ حکومت کے ہیں۔
کرپشن کو جانچا کس طرح جاتا ہے؟
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق ہر ملک کا کرپشن اسکور تین مختلف ذرائع کی جانب سے کیے جانے والے 13 مختلف سروے اور اندازوں کے بعد مرتب کیا جاتا ہے۔
کرپشن اسکور کے لیے عالمی بینک اور ورلڈ اکنامک فورم سمیت دنیا کے تین نامور اور معتبر اداروں کے ڈیٹا حاصل کیے جاتے ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی تنقید
حزبِ اختلاف کی جماعتیں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی بدعنوانی میں اضافے سے متعلق رپورٹ پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں اور اسے پارلیمنٹ میں زیرِ بحث لانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
حزبِ اختلاف کے سینیٹرز کا کہنا ہے کہ یہ عوامی مفاد کا اہم معاملہ ہے۔ لٰہذا اسے فوری ایوان میں زیرِ بحث لایا جائے۔ اس حوالے سے سینیٹ میں تحریکِ التوا بھی جمع کرا دی گئی ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف نے اپنے ایک بیان میں دعوی کیاہے کہ 2019 سے 2021 تک تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں بقول ان کے ہر سال کرپشن میں کمی واقع ہوئی تھی۔
پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس،ان کے الفاظ میں، اس حکومت کے خلاف چارج شیٹ کے مترادف ہے۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ کرپشن میں پاکستان کا 16 درجے اوپر جانا اس حکومت کے بیانیے کو بے نقاب کرتا ہے۔
'رپورٹ تحریک انصاف کی تین سالہ کارکردگی کا احاطہ کرتی ہے'
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی وائس چیئرپرسن جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال کہتی ہیں کہ بدعنوانی کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے نے پاکستان کی درجہ بندی آٹھ اداروں سے حاصل کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی درجہ بندی کرتے ہوئے جن اداروں سے حاصل شدہ ڈیٹا کا استعمال کیا گیا ہے ان میں گلوبل انسائٹس بزنس کنڈیشنز اینڈ رسک انڈیکیٹرز 2020، پی آر ایس گروپ انٹرنیشنل 2021، عالمی بینک کنٹری پالیسی اینڈ انسٹی ٹیوشنل اسسمنٹ 2021، ورلڈ اکنامک فورم، ایگزیکٹو اوپینین سروے 2020، ورلڈ جسٹس پراجیکٹ 2021 اور ورائٹی آف ڈیموکریسی شامل ہیں۔
ان کے بقول ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ یقینی طور پر تاثر پر مبنی ہے ۔ جن اداروں کے اعداد و شمار کی بنیاد پر پاکستان کی درجہ بندی کی گئی ان میں صرف مالیاتی ادارے نہیں بلکہ قانون کی بالادستی اور جمہوریت کے لیے کام کرنے والے ادارے بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ مختلف ادارے ہیں جو مختلف زاویہ نگاہ رکھتے ہیں۔ کوئی مالیاتی نگاہ سے دیکھتا ہے، کوئی کاروباری، کوئی قانون و انصاف اور کوئی جمہوریت کے اعتبار سےاندازے لگاتا ہے۔
ان کے بقول ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ تحریک انصاف حکومت کے گزشتہ تین سال کی کارکردگی کا احاطہ بھی کرتی ہے۔
ناصرہ اقبال کے مطابق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ برلن سے جاری ہوئی ہے اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کا اس رپورٹ کی تیاری یا اعداد شمار اکھٹا کرنے سے براہ راست کوئی واسطہ نہیں ہے۔