اسلام آباد —
پاکستان میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے عام انتخابات کے لیے سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات میں پولنگ کا عمل مکمل ہو گیا، جس کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔
ملک کے مختلف حصوں کے پولنگ اسٹیشنز سے ابتدائی طور غیر سرکاری نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں جن میں فی الوقت ملا جلا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔
ملک میں آٹھ کروڑ اکسٹھ لاکھ سے زائد اہل ووٹروں کے لیے انہتر ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے جن میں بیشتر پر ہفتہ کی صبح ہی ووٹروں کی قطاریں دیکھنے میں ملیں۔
سلامتی کے خدشات کے باوجود ملک میں پانچ سال بعد ہونے والے ان انتخابات میں بڑی تعداد میں ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
پولنگ کا عمل صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک جاری رہا لیکن بعد میں الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں پولنگ کے وقت میں ایک گھنٹے کی توسیع کر دی تھی۔
پاکستان میں یہ انتخابات اس لحاظ سے بھی انتہائی اہم ہیں کہ پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت نے مارچ میں اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کی جس کے بعد اب اقتدار منتخب ہونے والی نئی حکومت کو منتقل کیا جائے گا۔
نگراں وزیراطلاعات عارف نظامی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ اُنھیں توقع ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ ووٹ ڈالنے کی شرح بہتر ہو گی۔
’’وہ لوگ جو پولنگ اسٹیشنز کے قریب سے نہیں گزرتے تھے اس دفعہ وہ لائنوں میں لگے ہوئے ہیں، اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے قوم کی۔‘‘
پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کوئٹہ میں اپنا ووٹ ڈالنے بعد کہا کہ انتخابات کا انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں آئین کی بالادستی ہے۔
’’آئین کی بالادستی کی وجہ سے اب آئندہ کے لیے ہمارا پارلیمانی نظام چلے گا اور یہ بہت خوش آئند بات ہے۔‘‘
انتخابات کے دوران امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے فوج سمیت سکیورٹی فورسز کے چھ لاکھ سے زائد اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں خاص طور پر کراچی، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں متعدد افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔
پنجاب میں بھی انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدواروں کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی افراد زخمی ہوئے۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد ایک ہنگامی نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ خدشات اور دشواریوں کے باوجود انتخابات کا عمل مکمل ہونا ایک بڑی کامیابی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جن علاقوں سے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات مل رہی ہیں اُن کا نوٹس لیا جائے گا اور اس مقصد کے لیے الیکشن کمیشن میں ایک خصوصی سیل بھی بنا دیا گیا۔
ملک کے مختلف حصوں کے پولنگ اسٹیشنز سے ابتدائی طور غیر سرکاری نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں جن میں فی الوقت ملا جلا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔
ملک میں آٹھ کروڑ اکسٹھ لاکھ سے زائد اہل ووٹروں کے لیے انہتر ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے جن میں بیشتر پر ہفتہ کی صبح ہی ووٹروں کی قطاریں دیکھنے میں ملیں۔
سلامتی کے خدشات کے باوجود ملک میں پانچ سال بعد ہونے والے ان انتخابات میں بڑی تعداد میں ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
پولنگ کا عمل صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک جاری رہا لیکن بعد میں الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں پولنگ کے وقت میں ایک گھنٹے کی توسیع کر دی تھی۔
پاکستان میں یہ انتخابات اس لحاظ سے بھی انتہائی اہم ہیں کہ پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت نے مارچ میں اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کی جس کے بعد اب اقتدار منتخب ہونے والی نئی حکومت کو منتقل کیا جائے گا۔
نگراں وزیراطلاعات عارف نظامی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ اُنھیں توقع ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ ووٹ ڈالنے کی شرح بہتر ہو گی۔
’’وہ لوگ جو پولنگ اسٹیشنز کے قریب سے نہیں گزرتے تھے اس دفعہ وہ لائنوں میں لگے ہوئے ہیں، اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے قوم کی۔‘‘
پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کوئٹہ میں اپنا ووٹ ڈالنے بعد کہا کہ انتخابات کا انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں آئین کی بالادستی ہے۔
’’آئین کی بالادستی کی وجہ سے اب آئندہ کے لیے ہمارا پارلیمانی نظام چلے گا اور یہ بہت خوش آئند بات ہے۔‘‘
انتخابات کے دوران امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے فوج سمیت سکیورٹی فورسز کے چھ لاکھ سے زائد اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں خاص طور پر کراچی، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں متعدد افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔
پنجاب میں بھی انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدواروں کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی افراد زخمی ہوئے۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد ایک ہنگامی نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ خدشات اور دشواریوں کے باوجود انتخابات کا عمل مکمل ہونا ایک بڑی کامیابی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جن علاقوں سے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات مل رہی ہیں اُن کا نوٹس لیا جائے گا اور اس مقصد کے لیے الیکشن کمیشن میں ایک خصوصی سیل بھی بنا دیا گیا۔