انسداد دہشت گردی کے جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے ملک پاکستان نے گو کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن اب بھی ملک کے مختلف حصوں میں رونما ہونے والے دہشت گرد واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اس عفریت کو پوری طرح قابو کرنے کے لیے مزید منظم اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔
دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کی وجہ سے ماضی کی نسبت امن و امان کی صورتحال میں خاطر خواہ بہتری تو دیکھی جا رہی ہے اور حکام دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو توڑنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں لیکن رواں سال کے ان سات ماہ میں سے کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرا جس میں کوئی دہشت گرد واقعہ رونما نہ ہوا ہو۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے علاوہ عام شہریوں کو ہدف بنا کر فائرنگ کے متعدد واقعات بھی ان سات مہینوں میں رونما ہوئے لیکن اس سے کہیں زیادہ خطرناک وہ بم حملے ہیں جن میں ایک ساتھ کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
اس عرصے میں قبائلی علاقہ کرم ایجنسی سب سے زیادہ بم دھماکوں کا نشانہ بنا۔ سال 2017ء کے پہلے مہینے میں یہاں کے مرکزی قصبے پاڑا چنار کی سبزی منڈی میں ایک دیسی ساختہ بم دھماکے میں کم از کم 25 افراد ہلاک اور 80 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔
فروری ایک ایسا مہینہ ثابت ہوا جس میں نہ صرف سب سے زیادہ دھماکے ہوئے بلکہ ملک کے چاروں صوبوں اور قبائلی علاقے میں یہ مہلک واقعات رونما ہوئے۔
تیرہ فروری کو لاہور میں مال روڈ پر ہونے والے بم دھماکے میں پولیس کے دو اعلیٰ افسران سمیت کم از کم 14 افراد مارے گئے۔پندرہ فروری کو پشاور میں بم دھماکے سے دو جب کہ اسی روز قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
سولہ فروری کا دن دہشت گرد واقعات میں رواں سال کا اب تک کا سب سے مہلک دن رہا جس میں سندھ کے علاقے سیہون میں صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار پر خودکش بم دھماکے میں 88 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوئے جب کہ بلوچستان کے علاقے آواران میں ایک بم دھماکے میں تین سکیورٹی اہلکار مارے گئے۔
اکیس فروری کو خیبر پختونخواہ کے ضلع چارسدہ میں ہونے والے بم دھماکے میں سات افراد ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہوئے۔ تئیس فروری کو لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے میں ایک بم دھماکے میں آٹھ افراد مارے گئے۔
اسی مہینے میں پاکستانی فوج نے ملک بھر میں دہشت گردوں اور ان کے معاونین کے خلاف "آپریشن ردالفساد" کے نام سے کارروائیوں کا آغاز کیا۔
اکتیس مارچ کو ایک بار پھر کرم ایجنسی کا علاقہ پاڑا چنار دہشت گردوں کے نشانے پر آیا اور ایک امام بارگاہ کے قریب ہونے والے بم دھماکے میں کم ازکم 25 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔
پانچ اپریل کو لاہور کے علاقے بیدیاں روڈ پر مردم شماری کی ٹیم پر بم حملے میں چھ افراد ہلاک ہوئے۔ پچیس اپریل کو بھی کرم ایجنسی میں ہی ایک بم دھماکے میں بچوں سمیت 14 افراد نو زخمی ہوگئے۔
12 مئی کو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں دہشت گردوں نے ایک خودکش بم حملے میں سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری کو نشانہ بنایا۔ وہ خود تو اس حملے میں زخمی ہوئے لیکن اس واقعے میں 25 دیگر افراد مارے گئے۔
تئیس جون کو بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں ہونے والے خودکش بم دھماکے میں 14 افراد ہلاک ہوئے اور اسی دن کرم ایجنسی کے مرکزی قصبے پاڑا چنار میں یکے بعد دیگر دو بم دھماکے 75 افراد کی زندگی نگل گئے۔
رواں ماہ بلوچستان کے علاقے چمن میں ہونے والے بم حملے میں ضلعی پولیس افسر ساجد مہمند زندگی کی بازی ہار گئے جب کہ 24 جولائی کو لاہور میں خودکش بم دھماکے میں 26 افراد مارے گئے۔
واضح رہے کہ مندرجہ بالا واقعات کے علاوہ رواں سال اب تک فائرنگ اور تشدد پر مبنی متعدد دیگر واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں جن میں درجنوں جانیں ضائع ہوئیں۔