سندھ کے ضلع جامشورو کی تحصیل مانجھند میں رشتے کے تنازع پر ایک 25 سالہ شادی شدہ خاتون کے قتل کے مقدمے میں پولیس نے خاتون کے شوہر اور دیور کو گرفتار کر لیا ہے جب کہ ایک ملزم اب بھی مفرور ہے۔ خاتون وزیراں چاچڑ کی نعش 28 جون کو انڈس ہائی وے کے قریب ملی تھی۔
واقعے کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ وزیراں بی بی کے والد گل محمد کے مطابق اس کی بیٹی کی شادی 5 سال قبل علی بخش چاچڑ نامی شخص سے ہوئی تھی جب کہ اس کے عوض دونوں خاندانوں نے یہ بھی طے کیا تھا کہ علی بخش کی بہن کی شادی گل محمد کے بیٹے جاوید کے ساتھ ہو گی۔ وٹہ سٹہ کہلانے والی یہ روایت پاکستان کے دیہی علاقوں میں عام ہے جس کے تحت دونوں خاندان ایک دوسرے کے خاندانوں میں شادیاں کرتے ہیں۔
مدعی کے مطابق علی بخش کا خاندان وعدے کے مطابق رشتہ کرنے سے گریز کر رہا تھا جس کے بعد دونوں خاندانوں میں تلخی بڑھ گئی تھی اور وزیراں اس تلخی کے باعث اپنے والد کے گھر آ گئی تھی۔ تاہم جرگے کے فیصلے کے بعد اسے اپنے شوہر کے گھر بھیج دیا گیا۔
مقتولہ کے والد اور کیس کے مدعی گل محمد کا موقف ہے کہ اس کی بیٹی کو اس کے سسرال والوں نے تشدد اور پھر ہتھوڑا مار کر قتل کیا اور پھر اس قتل کو ایک روڈ ایکسیڈنٹ قرار دینے کی غرض سے اسے سڑک کنارے مردہ حالت میں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔
پولیس کو موصول ہونے والی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی ہلاکت کی وجہ بھاری چیز سے سر پر گہری چوٹ بتائی گئی ہے۔ جب کہ دوسری جانب وزیراں کے سسرال والوں کا موقف ہے کہ اس نے والد کی جانب سے رشتے کے حصول کے لئے بارہا دباؤ ڈالنے پر سڑک پر گاڑی سے ٹکرا کر خودکشی کی۔
تاہم علاقہ پولیس کا کہنا ہے کہ واقعہ کی تحقیقات مکمل ہونے اور حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد ہی اس بارے میں کوئی بات وثوق سے کہی جا سکے گی۔
خطے کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے واقعات اس کے چاروں ہی صوبوں میں رپورٹ ہوتے آئے ہیں۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں، قوانین کو موثر بنانے اور سزاوں کو سخت کئے جانے کے باوجود بھی اس میں کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔
صرف صوبہ سندھ میں 2019 میں 108 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ جب کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران یہ تعداد 510 خواتین کی ہے جنہیں غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ دوسری جانب انہی واقعات میں 159 مرد بھی قتل ہوئے۔
پولیس رپورٹ کے مطابق ان واقعات پر بنائے گئے مقدمات میں محض 2 فیصد کیسز میں ہی ملزمان کو سزائیں مل پائیں ہیں۔
انسانی حقوق کمشن پاکستان کی شریک چیئرپرسن عظمی' نورانی کا کہنا ہے کہ قوانین کو بہتر بنانے کے باوجود ان میں موجود بعض سقم کا فائدہ ملزمان باآسانی اٹھا لیتے ہیں، جب کہ اس بارے میں ہونے والی پولیس تفتیش میں خامیوں کا براہ راست فائدہ بھی ملزمان کو ہوتا ہے اور اکثر سرکاری وکیل کیس عدالت میں ثابت کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس میں سب سے بڑی خامی ایسے کیسز میں جرم ثابت ہونے پر سزا کا اطلاق ضروری قرار نہیں دیا گیا بلکہ محض جرمانے کی صورت میں بھی عدالت ملزم کو انتہائی کم سزا سنا سکتی ہے۔
اسی طرح عام طور پر دیکھا گیا یے کہ غیرت کے نام پر قتل کا فیصلہ جرگہ دیتا ہے، لیکن قانون میں ایسے افراد کی کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قوانین کو بہتر بنانے کے بعد ان پر عملدرآمد اور موثر تحقیقات ہی سے ایسے کیسز کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
شریک چیئرپرسن ایچ آر سی پی عظمی' نورانی کے خیال میں اس قسم کے واقعات کے تدارک کے لئے معاشرے میں محض قوانین کے نفاذ سے معاملہ سلجھ نہیں جاتا بلکہ اس کے لئے شہریوں میں شعور اجاگر کرنے کی بھی ضرورت ہے جس کے بغیر قوانین کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے پولیس افسران کی تربیت اور پھر میڈیا کے ذریعے ایسے واقعات کو پیش کرنے کے ساتھ اس کے اثرات اور قانون سے متعلق آگہی بھی ضروری ہے۔