تنازعات کے شکار پاک بھارت تعلقات کی بہتری کی جانب پیش رفت کا انحصار نہ صرف ان کی اعلی سیاسی قیادت پر ہے بلکہ دونوں ملکوں کے اہل فکرودانش کو ماضی کا جائزہ لے کر بہتر مستقبل کی راہ کی تلاش کرنے میں گفتگو کے ذریعہ اہم کردار ادا کنا چاہیے۔اس کے علاوہ دونوں جنوبی ایشیائی ایٹمی طاقتوں میں جنگ کے خطرے کے پیش نظر اور کشمیر اور دہشت گردی کے حل طلب مسائل کے تناظر میں عالمی برادری کو بھی خطے میں امن قائم کرنے کی خاطر پاک بھارت تعلقات کی بہتری میں دلچسبی لینی چاہیے ۔
ان خیالات کا اظہار پاکستان، بھارت اور امریکہ کے ماہرین کے درمیان واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ووڈروولسن کے زیر اہتمام ایک مباحثے میں کیا گیا۔
امیریکن یونیورسٹی میں ابن خلدون کے نام سے منسوب اسلامیات کے محکمہ کے چیئرمین پروفیسر اکبر احمد نے کہا کہ جب بھی دونوں ملک حکومتی سطح پر مذاکرات کرتے ہیں تو بھارت کی طرف سے پاکستانی سرزمین سے دہشت گردی اور پاکستان کی طرف سے کشمیر میں قتل عام اور فسطایت کے الزامات لگائے جانے سے بات چیت ناکام ہو جاتی ہے۔ ایسے میں سوچ و بچار رکھنے والے طبقوں کا کردار بہت بڑھ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل کی بہتری کو مد نظر رکھ کے ماضی کی غلطیوں کا جائزہ اور تعلقات میں بہتری کے لیے قابل عمل راہ دکھانی چاہیے۔
مثال کے طورپر انہوں نے کہا کہ خطے کی تہذیب بتاتی ہے کہ بھارت میں قدیم سنسکرت کے دور کے شانتی اور سیوا کے امن کے نظریات چلے آرہے ہیں جبکہ اسلام میں صوفیانہ سوچ صلح کل یعنی سب کے ساتھ امن کا نظریہ موجود ہے۔ ان دونوں کو اجاگر کرکے موجودہ حالات میں نفرت انگیز بیانیوں پر غالب آیا جاسکتا ہے تاکہ دونوں ہمسایہ ملک آنے والے وقت میں ایک متوازن سوچ کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔
پروفیسر اکبر احمد نے جو برطانیہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں، ن تجویز پیش کی کہ پاکستان اور بھارت کے سکولوں میں قدیم بھارت کے شہنشاہ اشوکا، مغل شہنشاہ اکبر اعظم، جدید بھارت کے بانی مہاتما گاندھی اور پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کی تعلیمات کو ان کے صحیح تناظر میں پڑھایا جا نا چاہیے تاکہ ان تاریخی شخصیات کے بقائے باہمی کے نظریات کو سمجھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ہر وقت منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے پاکستان کی سرزمیں مہابھارت، بدھ مت، ، سکھ مذہب اور انڈس ویلی تہذیب کی وارث ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بھارت میں اس بات کی آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیوں محمد علی جناح نے جو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے، مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک بنانے کا سوچا؟
مباحثےمیں حصہ لیتے ہوئے بھارت کی امریکہ میں سابقہ سفیر اور سابق سیکرٹری خارجہ نروپما راؤ نے کہا دونوں ملکو ں کی 1100 سالوں کی مشترکہ تاریخ ہے اور یہ تاریخ کئی حوالوں سے بھارت کی اندرونی سیاست اور ہندو مسلم سوال پر اثر انداز ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں امن اور صلح کی آواز اس لیے نمایاں نہیں ہے کیونکہ 1990 کی دہائی میں بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں شروع ہونے والی بغاوت کے بعد بھارت کو پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کا سامنا ہے۔
نروپما راؤ، نےجو ووڈرو ولسن کے ایشیا پروگرم کے ایڈوائزری بورڈ کی ممبر بھی ہیں، کہا کہ کشمیر اور دہشت گردی کے مسائل نے عام بھارتی شہریوں کی زندگی کو متاثر کیا ہے لہذا یہ مسائل ان کے ذہنوں میں ہیں۔ یہ مسائل بھارتی سیاست میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا بھارت اور پاکستان طویل عرصے سے چلتے آرہے بڑے مسائل کو ایک طرف رکھ کے مذاکرات کی طرف لوٹ سکتے ہیں، نرپما راو نے کہا نئی دہلی دہشت گردی کے مسئلے کو پس پشت نہیں ڈال سکتا کیونکہ بھارت کو پاکستان کی ریاست ابھی تک انتہا پسندوں کے بارے میں اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب فراہم نہیں کر سکی۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے موجودہ حالات مایوس کن دکھائی دیتے ہیں لیکن امن کی امید قائم رکھنی چاہیے۔
پاکستانی اور بھارتی ماہرین نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی اپنی آرا پیش کیں۔ پروفیسر اکبر احمد نے کہا کہ وہ جب بھی کشمیر کی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہیں تو انہیں خوف آتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ ناگزیر دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایٹم بم انسانوں میں تفریق نہیں کرتا ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اس وقت کشمیریوں سے یہ نہیں پوچھ رہا کہ آخر وہ کیا چاہتے ہیں۔
مذاکرات کی اہمیت کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کی موجودہ قیادت اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھارہی ہے اور نہ ہی بین الاقوامی برادری پاک بھارت جنگ کے خطرات کی موجودگی میں اس طرف توجہ دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا اس بات کی ضرورت ہے کہ دونوں ملک، خصوصاً بڑا ملک ہونے کے ناطے بھارت، ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئیں اور ایک دوسرے کےنقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
اس موقع پر ووڈروولسن سنٹر کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا کہ برصغیر کے تقسیم سے چلے آرہے مسائل دونوں ملکوں کے تعلقات کو متاثر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس پر دونوں بھارت اور پاکستان دعوی کرتے ہیں لیکن حقیقت میں دونوں اس کے حصوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بھارت نے پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔
واشنگٹن کی جنوبی ایشیا ئی امور میں دلچسبی کے متعلق انہوں نےکہا کہ یقیناً دو ایٹمی طاقت رکھنے والے ملکوں کے درمیان تناو پریشان کن ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ سالوں میں دیکھا گیا ہے کہ دونوں ملک روایتی جنگ تو کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ دونوں میں ایٹمی جنگ ناگزیر ہے ۔
کوگلمین نے کہا کہ امریکہ کی جنوبی اپشیا کی پالیسی موجودہ تناظر میں بھارت پر مرکوز ہے کیونکہ واشنگٹن میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ بھارت چین کا مدمقابل ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی چین سے مسابقت خطے کی جانب امریکی پالیسی پر اثر انداز ہوگی۔
بھارت کی سابق سفارتکار نروپما راؤ نے کہا کہ جنوبی ایشیا کو دور اندیش قیادت کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو وہ سیاسی حمایت حاصل ہے جس کی بنا پر وہ مذاکرات کی راہ اپنانے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔ البتہ انہوں نے یاد دلایا کہ مودی نے وزیر اعظم بننے کے بعد پاکستان کو امن کی راہ اپنانے کے اشارے دیے تھے اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے گھر بھی گئے تھے لیکن پٹھان کوٹ میں دہشت گردوں کے حملوں نے امن کی بات کو پیچھے دھکیل دیا۔ بھارت سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کی طرف سے دشت گردی کا شکار ہے۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان میں جمہوری سیاست مزید مضبوط ہو گی اور وہاں کی قیادت یہ سمجھے گی کہ دہشت گردی کو بھارت کے ساتھ تعلقات کے لئے آلہ بنا کر استعمال کرنا دونوں ملکوں کے تعلقات اور خود پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکرات کو دوبارہ شروع کرکے بہتر تعلقات کی طرف پیش رفت ممکن ہوگی۔
کشمیر کے حوالے سے انہوں نے اس بات کی حمایت کی کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب لوگوں کو ملنے کی اجازت ہونی چاہیے، اور بچھڑے ہوئے خاندانوں کا ملاپ ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے کشمیر کے دونوں حصوں میں آمدو رفت کے لیے ٹرانسپورٹ کھولنے اور مقدس مقامات کی زیارت کرنے کی اجازت کی بھی حمایت کی۔