پاکستان کے وزیر ِاعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دنیا ایک مرتبہ پھر 'سرد جنگ یا بلاک کی سیاست' میں واپس جانے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ان کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 جیسے وبائی امراض اور یوکرین کے بحران سے متاثرہ عالمی معیشت کے لیے دنیا میں کہیں بھی کشیدگی کے سنگین نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی میگزین' نیوز ویک' کے سینئر تجزیہ کار ٹام او کونر کو دیے گئے انٹرویو میں امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات کے بارے میں کہا کہ اگرچہ پاک چین تعلقات بہت خاص ہیں لیکن پاکستان اور امریکہ نے دیرینہ اور دوطرفہ تعلقات کو بھی برقرار رکھا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت مشکل حالات سے گزر رہی ہے اور ایسے میں دو ممالک جن کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلقات ہیں، ان کے درمیان تناؤ سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
وزیراعظم نے مزید کیا کہا؟
نیوزویک کے ساتھ انٹرویو میں وزیرِاعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہم خطے اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ امن اور استحکام کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ منسلک رہنے کے خواہش مند ہیں۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ دنیا سرد جنگ یا بلاک کی سیاست کے ایک اور دور میں جانے کی گنجائش نہیں رکھتی، کووڈ 19 جیسے وبائی امراض اور یوکرین کے بحران سے متاثرہ عالمی معیشت کے لیے کشیدگی کے سنگین نتائج پیدا ہوں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی تنازعات ہوں تو اس کے عالمی سطح پر نتائج سامنے آتے ہیں اور ان سے ترقی پذیر ممالک خاص طور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پہلے ہی اپنی سماجی اور اقتصادی بہبود کے لیے بیرونی اثرات سے متاثر ہیں، اس لیے ایسے ممالک نہیں چاہتے ہیں کہ بڑی طاقتوں کی دشمنی سے ان چیلنجز میں اضافہ ہو۔
چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کم کرنے میں کوئی کردار ادا کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیرِاعظم نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی دنیا کی تمام اقوام کے ساتھ دوستی اور خیر سگالی پر مبنی ہے۔اگر چین اور امریکہ چاہیں تو پاکستان دونوں ممالک کے درمیان اختلافات ختم کرنے کے لیے ماضی کی طرح مثبت کردار ادا کرے گا۔
انٹرویو میں وزیراعظم نے افغانستان کے بارے میں کہا کہ عالمی برادری افغان حکومت کے ساتھ رابطے رکھے، سماجی اور اقتصادی شعبوں میں مدد کریں اور ملک کے منجمد مالیاتی اثاثے بحال کر دیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان عبوری حکومت کو ان کے وعدوں پر عمل کرنے پر زور دے گا جن میں انسانی حقوق کا احترام، لڑکیوں کی تعلیم، اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں شامل ہیں۔
چین امریکہ کشیدگی ،پاکستان کو توازن قائم رکھنا ہوگا: تجزیہ کار
تجزیہ کارنجم رفیق کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ عالمی سطح پر توازن قائم رکھے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات وہ نہیں رہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سرد جنگ کے زمانے میں تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نجم رفیق کا کہنا تھا کہ امریکہ کے لیے خطے میں بھارت کی زیادہ اہمیت ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے سفارت کاروں اور سیاسی قیادت کی کوششوں کی وجہ سے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات سی پیک کی وجہ سے اہم ہیں، ایسے میں پاکستان کے لیے امریکہ اور چین دونوں بہت زیادہ اہم ہیں۔ اس تمام صورتِ حال میں پاکستان کے لیے چین اور امریکہ دونوں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
نجم رفیق کا کہنا تھا کہ پاکستان ہر کچھ عرصہ کے بعد آئی ایم ایف کی طرف دیکھتا ہے اور ایسے میں امریکہ سے تعلقات بہت ضروری ہیں۔ چین نے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ پاکستان کو دونوں ملکوں کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہوگا۔ اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اگر پاکستان کوئی کردار ادا کرسکے تو یہ بھی پاکستان کے لیے اچھا ہوگا۔
لیکن کیا پاکستان ایسا کوئی ثالثی کا کردار ادا کرسکتا ہے؟ اس بارے میں نجم رفیق نے کہا کہ یہ دو ہاتھیوں کی لڑائی ہے اس میں پاکستان کا کچھ خاص کردار تو نہیں کیونکہ ایک سپرپاور ہے اور دوسرا ابھرتی ہوئی سپرپاور ہے، ایسے میں پاکستان اگر کہے کہ ہم صلح کروادیں گے تو یہ درست نہ ہوگا، پاکستان ایسا کرنہیں سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی امریکہ سے دوستی ہے، چین سے اختلاف ہے لیکن اس کے باوجود ان کے چین کے ساتھ کاروباری روابط ہیں، لہذا خود کو الگ کسی بھی ملک سے نہیں کیا جاسکتا، پاکستان کو بھی ایسی ہی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جس میں دونوں اطراف کے درمیان توازن قائم رکھتے ہوئے آگے بڑھا جاسکے۔
تجزیہ کار اور سابق سفارت کار علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ پاکستان ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان رابطوں میں کردار ادا کرتا رہا ہے اور اگر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو تو بھی اس کو کم کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ لیکن یہ فوری طور پر ممکن نہیں کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان نہ تو جنگ کی صورتِ حال ہے اور نہ ہی ان کے رابطے منقطع ہوئے ہیں۔ پاکستان کا دونوں ممالک سے تعلق رکھنا پاکستان کے لیے ضروری ہے کیونکہ یورپ کے بعد امریکہ پاکستان کا دوسرا بڑا درآمد کنندہ ہے۔
اُن کے بقول وزیراعظم شہباز شریف کا اس صورتِ حال میں یہ بیان اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پاکستان کسی نئے تنازع میں نہیں آنا چاہتا اور اس کی خواہش ہے کہ دونوں ممالک کشیدگی کم کریں کیونکہ اس سے ترقی پذیر ممالک زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں جیسے حالیہ عرصہ میں کرونا وبا اور پھر یوکرین کی صورتِ حال کے باعث دنیا بھر میں مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا ہے اور پاکستان نہیں چاہتا کہ ایسی مشکل صورتِ حال کا اسے دوبارہ سامنا کرنا پڑے۔