لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں گرجا گھروں کے باہر ہونے والے دو خودکش دھماکوں کے بعد مشتعل ہجوم کی طرف سے دو مشتبہ افراد کو سرعام تشدد کے بعد جلا کر ہلاک کرنے کا معاملہ مختلف حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے منگل کو اسی بارے میں قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ جہاں گرجا گھروں پر حملے انتہائی قابل مذمت فعل ہیں وہیں بغیر تحقیق کے لوگوں کو تشدد کر کے ہلاک کرنا بھی اُن کے بقول ’’بدترین دہشت گردی‘‘ ہے۔
’’دو انسانوں کو جس طرح جلایا گیا یہ بھی بدترین دہشت گردی ہے، جس طرح سے سرکاری املاک کو نشانہ بنایا گیا کہ وہ بھی بدترین دہشت گردی ہے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ لاہور میں گرجا گھروں پر حملے اور اس کے بعد ہونے والے احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے کل 21 افراد میں سے سات مسلمان تھے۔
’’جن لوگوں نے دو افراد کو زندہ جلایا، اُن کے خلاف سخت سے سخت قانونی کارروائی ہو گی۔۔۔۔ جنہوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اُن میں سے بہت ساروں کے چہرے عیاں ہیں۔۔۔ ایک ایک کو گرفتار کیا جائے گا۔‘‘
متعدد اراکین پارلیمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پرتشدد مظاہروں سے صرف دہشت گردوں کے ایجنڈے کو تقویت ملتی ہے۔
دریں اثناء پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق ’ایچ آر سی پی‘ نے لاہور میں دو گرجاگھروں پر ہونے والے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ مسیحی برادری سمیت ملک میں آباد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن کارروائی کی جائے تاکہ بڑے سانحات سے بچا جا سکے۔
’ایچ آر سی پی‘ کے بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ مسیحی برادری کا پرتشدد رد عمل قابل فہم ہے تاہم ہجوم کے ہاتھوں دو افراد کے جلائے جانے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
وفاقی وزیر داخلہ کے بقول جن دو افراد کو مشتعل ہجوم کی طرف سے جلا کر ہلاک کیا گیا اُن کے بارے میں ابتدائی تحقیقات بھی کی جا رہی ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا چکا ہے جس کے بعد عبادت گاہوں اور اسکول جیسے اہداف کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔