پاکستان میں متحدہ حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کثرت رائے سے منظور ہونے کے بعد عمران خان وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیے گئے ہیں۔ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات ہونے والی اس رائے شماری میں ایوان کے 342 میں سے 174 اراکین تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیا۔
تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری سے قبل سپریم کورٹ کے حکم پر بلایا گیا اجلاس غیر یقینی کا شکار رہا۔
صبح ساڑھے دس بجے شروع ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس چار بار معطل کیا گیا اور حزب اختلاف کے بار بار اصرار کے باوجود رات گیارہ بجے تک عدم اعتماد کی قرارداد پر کارروائی کا آغاز نہ ہوسکا۔
صورت حال کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور دیگر جج صاحبان رات گئے سپریم کورٹ پہنچے۔امکان تھا کہ اگر رات بارہ بجے تک تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری نہ کروائی گئی تو عدالت عالیہ کی جانب سے حکومت اور اسپیکر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے۔
اسی صورت حال میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر وزیر اعظم ہاؤس سے واپس اسمبلی پہنچے اور کچھ ضروری مشاورت کے بعد اجلاس کا دوبارہ آغاز کیا۔
اسد قیصر نے کہا کہ حکومت نے انہیں بیرونی سازش کا مراسلہ بجھوایا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا موقف درست ہے کہ حکومت کے خاتمے میں بیرونی مداخلت کا عمل دخل ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کروائی جائے، لہذا وہ اپنے منصب سے مستعفی ہورہے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس قانونی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے پینل آف چیئرمین کے ایاز صادق کو اجلاس کی صدارت سونپتے ہوئے کہا کہ وہ اس کارروائی کو آگے بڑھائیں گے۔
اسد قیصر کے اس اعلان پر حکومتی اراکین نے امریکہ اور اپوزیشن کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور ایوان کا بائیکاٹ کرتے ہوئے باہر چلے گئے۔
تحریک عدم اعتماد کی کارروائی
ایاز صادق نے اسپیکر کی نشست سنبھالتے ہی قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد پر کارروائی شروع کردی اور اراکین کو اطلاع دینے کے لیے گھنٹیاں بجا کر اجلاس کو چار منٹ کے لیے ملتوی کیا۔
چونکہ رات کے بارہ بج چکے تھے اس لیے تاریخ تبدیل ہوجانے کے باعث اجلاس کا نیا دن شروع ہوا اور ایک مرتبہ پھر تلاوت، نعت اور قومی ترانے کے بعد اجلاس کی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
اس کے بعد عدم اعتماد کی ووٹنگ پر کارروائی شروع ہوئی جس پر اراکین نے باری باری ووٹ کاسٹ کیے۔ تمام اپوزیشن ارکان ایوان میں بائیں جانب گئے اور تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں ووٹ ڈالے۔
پی ٹی آئی کے منحرف اراکین نے عدم اعتماد کی کارروائی میں ووٹ نہیں ڈالے اور متحدہ اپوزیشن نے اپنے اور حکومت کے سابق اتحادیوں کی مدد سے 172 ارکان سے دوووٹ زیادہ حاصل کرکے کارروائی مکمل کی ۔
قائم مقام اسپیکر نے ووٹنگ کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد بتایا کہ عدم اعتماد کی حمایت میں 174 اراکین نے ووٹ ڈالے جس سے اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک سادہ اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔
پارلیمانی امور کی صحافت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ پارلیمانی تاریخ کا طویل ترین اجلاس تھا جو دوسرے دن میں داخل ہونے کے سبب دو بارہ باقاعدہ طور پر شروع کیا گیا۔
انتقام نہیں لیں گے لیکن قانون راستہ بنائے گا،شہباز شریف
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے پینل آف چیئرمین کے رکن ایاز صادق نے متحدہ اپوزیشن کے نامزد امیدوار برائے وزیراعظم شہباز شریف کو خطاب کی دعوت دی تو انہوں نے کہا کہ آج ایک نئی صبح طلوع ہونے والی ہے اور ایک نیا دن آنے والا ہے اور پاکستان کے کروڑوں لوگو ں کی دعائیں قبول ہوئی ہیں۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہم ماضی کی تلخیاں بھلا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور ہم اس قوم کے دکھوں اور زخموں پر مرہم رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی سے بدلہ نہیں لیں گے، کسی سے ناانصافی نہیں کریں گے لیکن قانون اور انصاف اپنا راستہ لے گا۔
شہباز شریف نے کہا کہ وہ اداروں کے ساتھ مل کر ملک کو چلائیں گے اور انصاف کا بول بالا ہوں گا۔
ویلکم ٹو پرانا پاکستان: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’آج 10 اپریل 2022 کو ویلکم بیک ٹو پرانا پاکستان۔‘
انہوں نے کہا کہ 10 اپریل کو اس ملک کا موجودہ دستور بنا اور اسی تاریخ کو ان کی والدہ اپنی طویل جلا وطنی ختم کرکے لاہور پہنچیں۔ اور آج ہی کے دن ہم سیلیکٹڈ وزیر اعظم کو گھر بجھوا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ "میں پاکستان کے نوجوانوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ خواب دیکھنا نہ چھوڑیں، کچھ بھی ناممکن نہیں۔"
بلاول بھٹو نے کہا کہ ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور جمہوریت بہترین انتقام ہے۔
اجلاس میں حکومت کا صرف ایک وزیر
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کے دوران ایوان میں موجود واحد حکومتی وزیر تھے۔ اسپیکر اسد قیصر کے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد حکومتی اراکین اسمبلی نعرے بازی کرتے ہوئے ایوان سے چلے گئے اور حکومتی نشستیں مکمل طور پر خالی ہو گئیں۔
علی محمد خان نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے حکومت قربان کردی ہے مگر غلامی منظورنہیں کی۔
اپنے جذباتی خطاب میں ان کا کہنا تھا یہ عارضی ناکامی ہے اور اسے شکست نہیں کہا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت دوبارہ اقتدار میں آئے گی۔
نئے قائد ایوان کا انتخاب سوموار کو ہوگا
وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کا اجلاس پیر کی سہ پیر دو بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
اجلاس کے اختتام پر پینل آف چیئرمین کے رکن ایاز صادق نے بتایا کہ وزیراعظم کے عہدے کے لیے کاغذات نامزدگی آج اتوار کو دوپہر دو بجے تک جمع کرائے جاسکتے ہیں۔
ان کے مطابق کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال سہ پہر تین بجے تک کی جائے گی جس کے بعد امیدواروں کے نام عام کیے جائیں گے۔
خیال رہے کہ متحدہ اپوزیشن کی جانب سے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو وزارتِ عظمٰی کا امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔