رسائی کے لنکس

صرف صدر پاکستان کو جوابدہ ہیں: اعزازی رکن پیمرا


میاں شمس کا کہنا تھا کہ پیمرا کے قوانین میں واضح ہدایات موجود ہیں اور 20 مئی کو بلایا جانے والا اجلاس کسی طور بھی ان کے بقول غیر قانونی نہیں تھا۔

پاکستان میں نجی ٹی وی چینل ’’جیو‘‘ کی طرف سے فوجی ادارے آئی ایس آئی سے متعلق نشریات اور بعد ازاں متنازع مواد دکھائے جانے سے پیدا ہونے والے تنازع پر جمعہ کو بھی ملک میں بحث و تکرار جاری رہی۔

عدالت عظمیٰ میں جیو کی طرف سے دائر درخواست پر جمعہ کو ہونے والی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی گئی جب کہ الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے "پیمرا" کے اعزازی ارکان کو وزارت اطلاعات کی طرف سے جیو کے معاملے پر اجلاس بلانے اور بعد ازاں ادارے کے دیگر ارکان کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے پر اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا۔

ان ارکان نے رواں ہفتے ایک اجلاس طلب کر کے اس میں مشاورت کے بعد جیو گروپ کے تین لائسنسز معطل کرنے کے احکامات جاری کیے تھے لیکن بعد ازاں پیمرا کے ایک ترجمان نے اس اجلاس کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔

جمعہ کو پیمرا کے ایک نجی رکن میاں شمس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ انھیں نوٹس موصول ہو چکا ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ وزارت ان سے جواب طلب کرنے کی مجاز نہیں اور نجی ارکان صرف پاکستان کے صدر کو جوابدہ ہیں۔

"ہم پرائیویٹ ممبر ہیں گورنمنٹ کے ملازم نہیں ہیں، پیمرا سے ہم تنخواہ نہیں لیتے، پبلک کی ہم نمائندگی کرتے ہیں اور ہماری مدت چار سال کے لیے ہے اور ہم آئین و قانون کے مطابق صدر کو جوابدہ ہیں۔ اب صدر پاکستان کی اتھارٹی ہے کہ پرائیویٹ ممبر کو نوٹیفائی کر سکے۔ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ یا سیکرٹری کے ہم ماتحت نہیں ہیں اور نہ ہی وہ مجاز ہیں نوٹس دینے کے۔"

اجلاس طلب کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پیمرا کے قوانین میں واضح ہدایات موجود ہیں اور 20 مئی کو بلایا جانے والا اجلاس کسی طور بھی ان کے بقول غیر قانونی نہیں تھا۔

"کیونکہ جس اصول اور قانون کے تحت پچھلے دس اجلاس ہوئے جو سرکاری ممبران نے کیے اسی کے تھت ہم نے یہ میٹنگ کی وہ یہ ہے شیڈول میٹنگ۔ اتھارٹی اگلی میٹنگ کی تاریخ طے کر لیتی تھی وہ اتھارٹی کا فیصلہ بن جاتا تھا۔"

جیو کے معاملے پر ملک بھر میں اس وقت ذرائع ابلاغ اور صحافتی برادری میں واضح تقسیم دیکھنے میں آ رہی ہے جسے غیر جانبدار مبصرین اسے پورے میڈیا کے لیے ایک خطرناک صورتحال قرار دے رہے ہیں۔

حکومتی عہدیداروں کو کہنا ہے کہ حکومت میڈیا پر کسی بھی طرح قدغن نہیں لگایا چاہتی اور اس کی کوشش ہے کہ تمام معاملات قانون کے مطابق متعلقہ فورمز پر ہی حل کیے جائیں۔
XS
SM
MD
LG