یوں تو پاکستان کی تقریباً سب ہی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں لیکن دو بڑی سیاسی جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما، میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ بڑی شدومد سے جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے ملک کی فضا جو پہلے ہی مکدر تھی اور بھی مکدر ہوتی جارہی ہے۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں اس صورت حال پر گفتگو کے لیے پیپلز پارٹی کے سینیٹر ڈاکٹر کریم خواجہ، مسلم لیگ نون کے رکن قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر اور تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس کو مدعو کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر ڈاکٹر کریم خواجہ نے اس سوال کے جواب میں کہ اس جھگڑے کا فائدہ کس کو پہنچے گا تو انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات کہ ایسا ہو رہا ہے جس کا فائدہ ان قوتوں کو ہو گا جو ملک میں جمہوریت نہیں چاہتیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ اور میاں نواز شریف نے ہمیشہ موقع پرستی کا مظاہرہ کیا ہے اور ان کی موقع پرستی کی وجہ سے پیپلز پارٹی آج پنجاب میں اپنا گراؤنڈ کھو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 2008 میں پنجاب نواز شریف کو دیا تھا تاکہ جمہوریت چل سکے کیونکہ اگر وہ اقتدار میں نہ آتے تو جھگڑے فساد شروع ہو جاتے، لیکن انہوں نے اس کا جواب یوں دیا کہ پنجاب میں صرف اپنے لئے جگہ رکھی اور پیپلز پارٹی کے لئے مسائل پیدا کئے۔ اس کے باوجود دھرنے کے دوران ہم نے انہیں سہارا دیا۔ اس کے بعد بھی انہوں نے موقع پرستی کا مظاہرہ جاری رکھا اور نتیجتاً آج حالات سب کے سامنے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے رکن قومی اسمبلی شیخ روہیل أصغر نے اپنی پارٹی کا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیڈر نواز شریف اپنی جانب سے کچھ نہیں کہہ رہے بلکہ زرداری صاحب جو کچھ کہہ رہے ہیں محض اس کا جواب دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے جو باتیں کیں وہ اصول سے ہٹ کر تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری بات یہ ہے کہ جب سیاسی جماعتوں کے درمیان معاہدہ ہوا تھا تو یہ طے ہوا تھا کہ کوئی پارٹی کسی آمر سے کوئی معاہدہ نہیں کرے گی نہ ہی ایم کیو ایم کے ساتھ کوئی معاہدہ کرے گی نہ ہی اسے اقتدار میں شامل کرے گی۔
شیخ روہیل کے بقول پیپلز پارٹی دونوں وعدوں سے منحرف ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ ان ساری باتوں کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں کو پہنچے گا۔ اور انہوں نے کسی پارٹی کا نام لیے بغیر کہا کہ اس کا فائدہ وہ قوتیں اٹھا رہی ہیں جو دوسروں کے اشاروں پر کام کرتی ہیں۔
ممتاز سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش ریئس نے کہا کہ گالم گلوج صرف پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کے ہی درمیان نہیں ہو رہی ہے بلکہ پی ٹی آئی کا بھی پی ایم ایل نون اور پیپلز پارٹی کے ساتھ انداز گفتگو اسی قسم کا ہوتا ہے۔ اور رواداری، برداشت، اور شریفانہ رویے کی روایت ختم ہوتی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میں بقول ان کے بطور خاص ایسے لوگوں کو بھرتی کیا گیا جو گالم گلوچ میں مہارت رکھتے ہیں۔ انہیں فوج، عدلیہ اور اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا اور انہیں کابینہ عہدے دے کر نوازا گیا۔ جس کی ہندوستان اور پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایسے لوگوں کو آگے بڑھایا گیا ہو۔ اور ان کا بھی یہ ہی کہنا تھا کہ اس صورت حال کا فائدہ جمہوریت مخالف قوتوں کو پہنچے گا۔
مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔