رسائی کے لنکس

نئے صوبوں کی بحث میں کراچی کا نام ، قوم پرست جماعتوں کا سخت رد عمل


نئے صوبوں کی بحث میں کراچی کا نام ، قوم پرست جماعتوں کا سخت رد عمل
نئے صوبوں کی بحث میں کراچی کا نام ، قوم پرست جماعتوں کا سخت رد عمل

ملک میں جاری نئے صوبوں کی بحث میں کراچی کا نام آنے کے بعد قوم پرست جماعتوں کی جانب سے جو سخت رد عمل سامنے آیا ہے اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ نئے صوبے بنانے اسی قدرمشکل نہ ہوجائیں جس قدر نئے ڈیمز بنانا مشکل ہورہا ہے۔اگرچہ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں نئے صوبے بنانے کے حق میں ہیں لیکن پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی جانب سے سندھ میں اور خصوصاً کراچی کو صوبہ بنائے جانے کے بیان پر سیاست میں کھلبلی سی مچ گئی ہے۔ ایک جانب مسلم لیگ ق کو ایک بار پھر سیاسی ماحول گرمانے کا موقع مل گیا تو دوسری طرف کراچی میں مسلم لیگ (ن) کے دفاتر اور مسلم لیگی رہنما ۔۔۔۔کے ہوٹل پر توڑ پھوڑ نے ایک نئی فضاء قائم کردی ہے۔

پاکستان میں نئے صوبوں کے مطالبے نے موجودہ دور میں اس وقت زور پکڑا جب گزشتہ سال 8 اپریل کو اٹھارویں آئینی ترمیم منظور کی گئی جس میں صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخواہ رکھا گیا ۔ اس پر ہزارہ ڈویژن میں سخت رد عمل سامنے آیا اور پرتشدد احتجاج شروع ہو گیا جس میں تقریباً درجن کے قریب قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ۔اس تمام تر صورتحال میں تحریک صوبہ ہزارہ نے جنم لیا جس کے تحت یہاں کے لوگوں نے الگ صوبے کا مطالبہ کر دیا اور اس سلسلے میں کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں جلسوں کا انعقاد بھی کیا گیا ۔

اسی دوران پاکستان میں کئی عشروں سے جاری سرائیکی صوبے کے قیام سے متعلق مطالبہ بھی زور پکڑ گیا ۔حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے تو اسے اپنے منشور میں بھی شامل کر لیا ۔ 15 اپریل کو بہاولپور کے امیر نواب صلاح الدین عباسی کی جانب سے بہاولپور کو الگ صوبہ بنانے کے لئے تحریک کا اعلان کیا گیا ۔تحریک صوبہ بہاولپور کا کہنا ہے کہ سرائیکی صوبہ ان کا مطالبہ نہیں ، سرائیکی صوبے کا مطالبہ کرنے والے چاہیں تو ملتان ، ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان سمیت جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع کو ساتھ ملا کر الگ صوبہ بنا یا جا سکتا ہے ۔تحریک بہاولپور کے مطابق قیام پاکستان کے وقت ریاست بہاولپور کو پاکستان میں ضم کرتے وقت قائد اعظم محمد علی جناح نے وعدہ کیا تھا کہ بہاولپور کو الگ صوبہ بنایا جائے گا لہذا اسے ایفا کیا جائے ۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا ساتھ دینے پر مسلم لیگ ق کو سیاسی حلقوں میں شدید تنقید کا سامنا تھا اور یہی وجہ تھی کہ حکمران جماعت پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین صدر آصف علی زرداری نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اسے" قاتل لیگ" بھی کہا تاہم نئے صوبوں کی تحاریک میں ایک بار پھر مسلم لیگ ق کو بھر پور سیاست کرنے کا موقع مل گیا اور انہوں نے اپنی سیاست کا محور بھی نئے صوبوں کے قیام کو بنا لیا ہے اور اس میں کافی حد تک وہ کامیاب بھی نظر آ رہے ہیں ۔

ہزارہ ڈویژن مسلم لیگ ن کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا رہا تاہم اٹھارویں ترمیم میں صوبہ خیبر پختونخواہ کی منظوری کے بعد اس کی وہاں پوزیشن انتہائی کمزور ہو گئی اور وہاں کے مقامی افراد کی دل کی آواز کو مسلم لیگ ق نے بھانپ لیا اوروہ تحریک صوبہ ہزارہ کی بھر پور حمایت کر رہی ہے جس کا پھل اسے آئندہ انتخابات میں مل سکتا ہے ۔

دوسری جانب اگر چہ حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے سرائیکی صوبہ کی حمایت کی ہے تاہم ان کا بہاولپور صوبے کے قیام سے متعلق اس کا واضح موقف سامنے نہیں آیا اور یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ق تحریک صوبہ بہاولپور میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے اوراس نے وفاقی کابینہ میں شمولیت کو بھی نئے صوبوں کے قیام سے مشروط کر دیا جس کے باعث دیگر سیاسی طاقتوں کے مقابلے میں اس کے قد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

ماہرین کے مطابق اگر مسلم لیگ ق وفاقی کابینہ میں شمولیت کے بعد حکمران جماعت پیپلزپارٹی سے نئے صوبوں سے متعلق مطالبہ پورا کروا لیتی ہے تو ان نئے صوبوں کی اسمبلیوں میں اس کا راج ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن تاحال نئے صوبوں سے متعلق اپنا موقف کھل کر پیش نہیں کر سکی۔ اگر چہ جاوید ہاشمی اور کچھ قائدین صوبوں کے حق میں ہیں تاہم اعلیٰ قیادت کی جانب سے تاحال اس معاملے پر کوئی ٹھوس بیان سامنے نہیں آ سکا ۔ اتوار کو اسی موقف کو جاننے کیلئے ایک صحافی کے سوال پر مسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وہ نئے صوبوں کے مخالف نہیں، نئے صوبے بننے چاہیئں، کراچی کو بھی نیا صوبہ بنایا جا سکتا ہے ۔نواز شریف کی واپسی پر اس مسئلہ پر پارٹی حکمت عملی طے کی جائے گی ۔

اس بیان نے خیبر پختونخواہ اورپنجاب کے بعدسندھ میں بھی نئے صوبوں سے متعلق ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے اس بیان کی سندھ کی بڑی جماعت پیپلزپارٹی سمیت متحدہ قومی موومنٹ ، عوامی نیشنل پارٹی اور تمام قوم پرست جماعتوں کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا اور اسے سندھ کی تقسیم کرنے کی سازش قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پیر کو شہباز شریف کو اپنے بیان کی وضاحت کرنی پڑی کہ انہوں نے صرف ایک سوال کیا تھا کہ ”کیا کراچی کوصوبہ بنایا جاسکتا ہے ؟یہ کوئی پارٹی پالیسی نہیں تھی “ تاہم شہباز شریف کا یہ بیان قوم پرستوں کو مطمئن نہ کر سکا اور اس کے رد عمل میں کراچی میں مسلم لیگ ن کا دفتر نذرآتش کر دیا گیا اور پارٹی کے ایک رہنما سردار رحیم کے ریسٹورنٹ میں بھی توڑ پھوڑ کی اورعملے کو ہراساں کیا گیا ۔

مبصرین کے مطابق کراچی کو صوبہ بنائے جانے پر ردعمل اپنی جگہ لیکن شہباز شریف کے اس بیان سے ملک کے ان حلقوں کو تقویت ملی ہے جن کا ماننا ہے کہ ملک کو اگر چھوٹے چھوٹے یونٹس میں تقسیم کیا جائے تو وسائل کا بہتر انداز میں استعمال ممکن ہے ۔

XS
SM
MD
LG