پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے حالات جاننا شاید آسان ترین کام ہے۔ دنیا بھر میں دیواروں کے کان ہوتے ہیں لیکن یہاں دیواروں کی زبان بھی ہے۔ زبان بھی ایسی لمبی کہ بس ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
شہر کی دیواریں لاتعداد سیاسی و مذہبی نعروں، اپیلوں، دعووٴں، پیش گوئیوں، خدشات، امکانات اور ہدایات کے ساتھ رنگی ہوئی ہیں۔ لوگوں کے مسائل اور مطالبات کا محور بھی یہی دیواریں ہیں۔ خاص طور پر ایسے مطالبات جن کا لبوں پہ لانا تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔ لہذا، اس کا آسان حل یہ ہے کہ رات کو ’حال دل‘ دیواروں پر لکھ دیا جائے جو صبح زبان زدعام بن جاتا ہے۔
ایم کیو ایم شہر کی سب سے بڑی جماعت ہے، یہی وجہ ہے کہ شہر کے تقریباً ہر کونے میں دیواریں اس کی مقبولیت کی گواہ ہیں۔ اس کی ایک مثال گزشتہ ماہ اس وقت سامنے آئی جب ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے کارکنان سے رائے طلب کی کہ کیا وہ قیادت چھوڑ دیں، تو بڑی تعداد میں کارکنان ان کی کراچی میں رہائش گاہ نائن زیرو پر پہنچ گئے اور چند گھنٹوں میں ہی کارکنان نے اپنے رہنما سے اظہار محبت کے لئے شہر بھر کی دیواروں کو نعروں سے سجا دیا۔
آج کل ملک میں ہرطرف لانگ مارچ کی گونج ہے، شہر کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم واحد سیاسی جماعت ہے جو اس کی بھرپور حمایت کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام نظریں اس پر مرکوز ہیں اور اس کی قیادت میڈیا پر خوب بیانات بھی دے رہی ہے۔۔۔ لیکن حیرت انگیز طور پر شہر کے درو دیوار نے پراسرار طور پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ وی او اے کے نمائندے نے شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا، سب جگہ نظریں دوڑائیں لیکن کسی دیوار سے بھی کوئی جواب نہ ملا۔۔۔ایم کیو ایم کی جانب سے کسی دیوار کو یہ نہیں بتایا گیا کہ ’چلو چلو اسلام آباد چلو ‘۔
جب یہ صورتحال مختلف سیاسی و صحافتی حلقوں میں زیر بحث لائی گئی تو شہر کی دیواروں کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ تر رائے میں یہ تاثر سامنے آیا کہ شاید کراچی والے ممکنہ طور پر اسلام آباد کے تحریر اسکوائر بننے میں وہ کردار ادا نہ کریں جس کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ اس بار دیواروں کی جان بوجھ کر یا کسی حکمت عملی کے تحت زبان کاٹ دی ہو۔۔ بہرحال، لانگ مارچ میں صرف پانچ دن رہ گئے ہیں۔۔۔ زبان دراز دیواروں کی خاموشی اور الطاف حسین کے ممکنہ خوشگوار ڈرون حملے سے بہت سے سوالات ذہنوں میں زیر گردش ہیں۔
شہر کی دیواریں لاتعداد سیاسی و مذہبی نعروں، اپیلوں، دعووٴں، پیش گوئیوں، خدشات، امکانات اور ہدایات کے ساتھ رنگی ہوئی ہیں۔ لوگوں کے مسائل اور مطالبات کا محور بھی یہی دیواریں ہیں۔ خاص طور پر ایسے مطالبات جن کا لبوں پہ لانا تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔ لہذا، اس کا آسان حل یہ ہے کہ رات کو ’حال دل‘ دیواروں پر لکھ دیا جائے جو صبح زبان زدعام بن جاتا ہے۔
ایم کیو ایم شہر کی سب سے بڑی جماعت ہے، یہی وجہ ہے کہ شہر کے تقریباً ہر کونے میں دیواریں اس کی مقبولیت کی گواہ ہیں۔ اس کی ایک مثال گزشتہ ماہ اس وقت سامنے آئی جب ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے کارکنان سے رائے طلب کی کہ کیا وہ قیادت چھوڑ دیں، تو بڑی تعداد میں کارکنان ان کی کراچی میں رہائش گاہ نائن زیرو پر پہنچ گئے اور چند گھنٹوں میں ہی کارکنان نے اپنے رہنما سے اظہار محبت کے لئے شہر بھر کی دیواروں کو نعروں سے سجا دیا۔
آج کل ملک میں ہرطرف لانگ مارچ کی گونج ہے، شہر کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم واحد سیاسی جماعت ہے جو اس کی بھرپور حمایت کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام نظریں اس پر مرکوز ہیں اور اس کی قیادت میڈیا پر خوب بیانات بھی دے رہی ہے۔۔۔ لیکن حیرت انگیز طور پر شہر کے درو دیوار نے پراسرار طور پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ وی او اے کے نمائندے نے شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا، سب جگہ نظریں دوڑائیں لیکن کسی دیوار سے بھی کوئی جواب نہ ملا۔۔۔ایم کیو ایم کی جانب سے کسی دیوار کو یہ نہیں بتایا گیا کہ ’چلو چلو اسلام آباد چلو ‘۔
جب یہ صورتحال مختلف سیاسی و صحافتی حلقوں میں زیر بحث لائی گئی تو شہر کی دیواروں کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ تر رائے میں یہ تاثر سامنے آیا کہ شاید کراچی والے ممکنہ طور پر اسلام آباد کے تحریر اسکوائر بننے میں وہ کردار ادا نہ کریں جس کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ اس بار دیواروں کی جان بوجھ کر یا کسی حکمت عملی کے تحت زبان کاٹ دی ہو۔۔ بہرحال، لانگ مارچ میں صرف پانچ دن رہ گئے ہیں۔۔۔ زبان دراز دیواروں کی خاموشی اور الطاف حسین کے ممکنہ خوشگوار ڈرون حملے سے بہت سے سوالات ذہنوں میں زیر گردش ہیں۔